Maktaba Wahhabi

347 - 377
استعمال نہ کرتے۔(ایک نظر: ص ۶۷) مگر یہ بات ان کی بالکل غلط اور محض ظن و تخمین پر مبنی ہے۔ علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ المتوفی ۴۶۳ھ نے اگر یہ فرمایا ہے تو ان کے معاصر امام بیہقی رحمہ اللہ المتوفی ۴۵۸ھ نے یہ اثر نقل کیا ہے اورحضرت جابر رضی اللہ عنہ کو خلف الامام فاتحہ پڑھنے والوں کی صف میں کھڑا کیا ہے۔ اس لیے ان کا یہ دعویٰ سراسر حقیقت کے خلاف اور دھوکا پر مبنی ہے۔ ابن ماجہ میں کتابت کی غلطی ہے تو کیا السنن الکبریٰ کتاب القراء ۃ وغیرہ کتابوں میں بھی کتابت کی غلطی ہے؟ امام حاکم اسے صحیح مسند قرار دیتے ہیں مگر افسوس ڈیروی صاحب کو کتابت کی غلطی نظر آتی ہے۔ پھر علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے اگر یہ کہا ہے تو ان کی تردید مولانا عبدالحی لکھنوی رحمہ اللہ نے کی ہے لکھتے ہیں: وقد یقال علیہ ان کون جابر ممن صح عنہ ما ذھب الیہ الکوفیون من غیر اختلاف عنہ مما ینکرہ روایۃ ابن ماجۃ عنہ الدالۃ علی القراء ۃ فی السریۃ۔(امام الکلام : ص ۳۲) ’’ اس کے بارے میں کہا جائے گا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے صحیح طور پر بلااختلاف اہل کوفہ کے موافق ہونا ایسا ہے کہ ان سے ابن ماجہ کی روایت اس دعویٰ کو منکر قرار دیتی ہے، جو سری نمازوں میں قراء ت خلف الامام پر دلالت کرتی ہے۔ ‘‘علاوہ ازیں علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ کے اس قول سے تو یہ بھی مترشح ہوتا ہے کہ حضرت عبدالله بن عمر اور حضرت زید رضی اللہ عنہ بن ثابت سے صحیح طو رپر فاتحہ خلف الامام پڑھنا بھی منقول ہے اور ان کے بارے میں ڈیروی صاحب کی طول بیانی ان کے اسی پسندیدہ اصول کی بنا پر بے کار ثابت ہوتی ہے جس میں انھوں نے (ص ۵۷،۶۲،۷۹) ثابت کیا ہے کہ یہ دونوں حضرات بھی خلف الامام نہیں پڑھتے تھے۔ اب دیکھیے کہ ابن ماجہ وغیرہ کی روایت غلط کیونکر ہے؟ چنانچہ اس کے لیے یہ سہارا لیا گیا کہ : ۱۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ و ابن عمر رضی اللہ عنہما و زید رضی اللہ عنہ بن ثابت سے ہے کہ امام کے پیچھے کسی نماز میں قراء ت نہ کرو۔ (طحاوی)
Flag Counter