Maktaba Wahhabi

333 - 377
ابن حجر یکم رجب ۸۴۲ھ میں اس کی تصنیف سے فارغ ہوا۔’’ فی اول یوم من رجب سنۃ اثنتین و اربعین و ثمانمائۃ‘‘(فتح الباری : ج ۱۳ ص ۵۴۶) ۔ نتیجہ نصف النہار کی طرح واضح ہے کہ فتح الباری کی تکمیل الدرایہ کی تکمیل کے تقریباً پندرہ سال بعد ہوئی۔مگر شیخ الحدیث ڈیروی صاحب اس کے برعکس فرماتے ہیں ’’الدرایہ فتح الباری سے بہت بعد کی تصنیف ہے۔‘‘بتلائیے دھوکا کس نے دیا ؟ اور الٹا ذہن ڈیروی مقلد کا ہے یا غیر مقلدین کا؟ ہم فتح الباری وغیرہ کے ناقابل تردید کئی حوالوں سے پہلے ثابت کر آئے ہیں کہ ابن رحمہ اللہ اسحاق صدوق ہے۔ اس کا تفرد حسن درجہ سے کم نہیں بشرطیکہ وہ مدلس نہ ہو اوراس کی روایت ثقات کی مخالف نہ ہو۔ اور مولانا صفدر وغیرہ نے جو الدرایہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ ابن رحمہ اللہ اسحاق کا تفرد حجت نہیں۔ اس بارے میں بھی توضیح الکلام (ج ۱ ص ۲۴۳) میں بحوالہ ابکار المنن ،فتح الباری سے نقل کر چکے کہ ابن رحمہ اللہ اسحاق کا تفرد حجت ہے اور ڈیروی صاحب کے شیخ مکرم کے حوالے سے عرض کر چکے ہیں کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی پسندیدہ کتابیں فتح الباری، مقدمہ فتح الباری، تہذیب ، لسان ،مشتبہ ، نخبۃ الفکر اور تغلیق ہیں۔لہٰذا الدرایہ کے مقابلے میں فتح الباری کا حوالہ راجح ہے اور زیادہ قابل اعتبار ہے۔ مگر یہ بات ڈیروی صاحب کو کب گوارہ تھی۔ ان کی بہانہ سازی کی داد دیجیے کہ لکھتے ہیں: اولاً فتح الباری کا صفحہ اور جلد نقل کرنا ضروری تھا‘‘(ایک نظر: ص ۱۱۱) گویا ابکارالمنن میں جو فتح الباری کا حوالہ ہے وہ قابل اعتبار نہیں۔ جناب من! ہم عرض کرتے ہیں کہ یہ عبارت فتح الباری (ج ۱۱ ص ۱۶۳) ، باب الصلاۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، کتاب الدعوات باب نمبر۳۲ میں آپ دیکھ لیں بلکہ اس کے علاوہ بھی ہم پہلے ابن رحمہ اللہ اسحاق اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے عنوان سے فتح الباری کے دیگر حوالوں سے اور شرح نخبۃ الفکر کے حوالے سے نقل کر آئے ہیں کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ، ابن رحمہ اللہ اسحاق کی منفرد روایت کو بھی حسن قرار دیتے ہیں بشرطیکہ وہ ثقات کے مخالف نہ ہو۔ ڈیروی صاحب نے مزید لکھا ہے کہ: ثانیاً فتح الباری (ج ۴ ص ۱۷) میں ہے ابن رحمہ اللہ اسحاق تاریخ و غزوات میں تو حجت ہے مگر احکا م میں حجت نہیں جب وہ دوسرے راوی کی
Flag Counter