Maktaba Wahhabi

299 - 377
اور مشہور ہے۔‘‘ (جمع الجوامع : ج ۱۴ ص ۴۸۲ رقم ۱۱۵۰۶) گویا انھوں نے امام بیہقی رحمہ اللہ سے کوئی اختلاف نہیں کیا ۔ علامہ سیوطی رحمہ اللہ روایت نقل کرنے کے بعد محدث سے ہمیشہ اتفاق نہیں اختلاف بھی کرتے ہیں۔ علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے ایک روایت کے بارے میں لا اصل لہ کہا مگر علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے اس کی تردید کی ۔ ملاحظہ ہو کنز العمال (ج ۲ ص ۳۴۰،۳۴۱، رقم۴۱۸۸)۔ اسی طرح ایک حدیث کے بارے میں امام ابن رحمہ اللہ شاہین نے حسن غریب کہا جب کہ المغنی اور میزان کے حوالے سے انھوں نے لکھا کہ درمک رحمہ اللہ بن عمرو ابواسحاق سے منکرروایت بیان کرنے میں منفرد ہے اور ابوحاتم نے اسے مجہول قرار دیا ہے۔کنز (ج ۲ ص ۶۶۳، رقم۵۰۱۶) اس لیے علامہ سیوطی نے جب امام بیہقی رحمہ اللہ سے اختلاف نہیں کیا تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ بھی اس حکم سے متفق ہیں۔ اسی طرح علامہ علی متقی بھی علامہ سیوطی رحمہ اللہ اور امام بیہقی رحمہ اللہ کے ہمنوا ہیں گو اسے ان کی اپنی رائے قرار نہ بھی دیا جائے ۔ ڈیروی صاحب تو اس روایت کو ’’من گھڑت‘‘ موضوع قرار دیتے ہیں۔ اس کے برعکس امام بیہقی رحمہ اللہ کا اس روایت کو ’’ اسناد صحیح‘‘ علامہ سیوطی رحمہ اللہ اور علامہ علی متقی ان کی ہمنوائی میں ’’ اسنادہ صحیح‘‘ کہتے ہیں۔ انصاف شرط ہے کہ ڈیروی صاحب کے بے بنیاد دعویٰ کو تسلیم کیا جائے یا ان متقدمین کے فیصلے کو؟ کنز العمال کے مقدمہ (ص ۱۰) میں مذکور ہے کہ مستدرک حاکم کی جن روایات پر علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے تعاقب نہیں کیا وہ صحیح ہیں۔ بس اسی اصول کی بنا پر تو مستدرک کی ایسی روایات کے بارے میں یہ حنفی اصول قرار پائے کہ اسنادہ صحیح علی قاعدۃ الکنز المذکورۃ فی خطبتہ (اعلاء السنن : ۱ ؍۱۴۹،۲۶۰،۲۶۱، ۳؍۸۲، ۴؍۲۸۸،۳۲۴) علامہ سیوطی نے حاکم کی اس روایت پر سکوت کیا ہے ، لہٰذا اس کی سند صحیح ہے۔ ہم یہاں مزید تفصیل میں جانا مناسب نہیں سمجھتے۔ صرف یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ اسی اصول کی بنا پر مستدرک کی ایسی روایات تو صحیح قرار پائیں مگر جہاں علامہ سیوطی رحمہ اللہ اور ان کی پیروی میں علامہ متقی، بیہقی رحمہ اللہ کی روایت کو اسنادہ صحیح صحیح کہیں وہ بلاوجہ ضعیف بلکہ من گھڑت قرار پائے، آخر کیوں؟ کس قدر تعجب کی بات ہے کہ علامہ سیوطی رحمہ اللہ اور علامہ علی متقی رحمہ اللہ کا
Flag Counter