Maktaba Wahhabi

295 - 377
بیہقی رحمہ اللہ کبھی ایسی سند کو بھی جید یا صحیح کہتے ہیں جس میں ابراہیم بن ابی اللیث اور ابوبحر محمد بن الحسن البربہاری جیسے کذاب راوی ہوتے ہیں۔ملخصاً (ایک نظر: ص ۱۴۶،۱۴۷) مگر ڈیروی صاحب نے یہ غور نہیں کیا کہ راوی کی توثیق و تضعیف میں اختلاف کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ ایک محدث راوی کو سخت ضعیف قرار دیتا ہے جبکہ دوسرے کی رائے اس کے برعکس ہوتی ہے اور وہ اسے ثقہ اور قابل اعتماد سمجھتا ہے۔ ایسی صورت میں جرح مفسر ثابت ہو تو توثیق یا روایت پر حسن یا صحیح ہونے کا حکم قابل اعتبار نہیں ہوگا۔ مگر جس راوی کے بارے میں ائمہ محدثین سے کوئی جرح ثابت نہ ہو اور اس کی روایت پر کوئی قابل اعتماد محدث صحیح یا اسنادہ حسن یا صحیح کا حکم لگاتا ہے تو اس کے راویوں کو ثقہ و صدوق ہی سمجھا جائے گا۔ جیسا کہ باحوالہ پہلے گزر چکا ہے۔ اسی لیے اگر امام بیہقی رحمہ اللہ نے کسی ایسی روایت کو صحیح یا جید کہا ہے، جس میں راوی پر مفسر جرح دوسرے ائمہ محدثین سے ثابت ہے تو بلاریب امام بیہقی رحمہ اللہ کا موقف قابل قبول نہ ہوگا۔ لیکن اس کے یہ معنی قطعاً نہیں کہ ان کے باقی اقوال بھی بلا برہان ردی کی ٹوکری میں ڈال دیئے جائیں گے جیساکہ ڈیروی صاحب کہہ رہے ہیں۔ علاوہ ازیں السنن الکبریٰ (ج ۲ ص ۱۶۶) کی جس روایت کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس میں ابراہیم بن ابی اللیث کذاب ہے تو عرض ہے کہ وہ اس روایت میں قطعاً منفرد نہیں۔ جس کی ضروری تفصیل ہم نے توضیح الکلام جلد اول میں گیارہویں حدیث کے تحت بیان کر دی ہے۔ اس لیے ابراہیم کی بنا پر ڈیروی صاحب اور ان کے شیخ مکرم کا اعتراض قطعاً درست نہیں۔کبھی حدیث پر حکم روایت کے مجموعی طرق کی بنا پر بھی ہوتا ہے بالکل یہی پوزیشن السنن الکبریٰ (ج ۲ ص ۲۰۳) میں ابوبحر محمد بن الحسن البر بھاری پر اعتراض کی ہے۔ محولہ صفحہ میں یہ روایت اگر البربھاری کی سند سے ہے تو السنن (ج ۲ ص ۲۱۰) میں البربھاری کی سند کے علاوہ دوسری سند سے مفصل روایت بھی موجود ہے۔ بلکہ عبدالرزاق (ج ۳ ص ۱۱۵) ، تہذیب الآثار للطبری (ج ۲ ص ۲۶) ابن ابی شیبہ (ج ۲ ص ۳۱۴) ، طحاوی وغیرہ میں یہی روایت موجود ہے، جہاں البربھاری کا کوئی تصور نہیں، اس لیے اس کی بنا پر اعتراض اصل اسلوب سے بے خبری کا نتیجہ ہے۔
Flag Counter