Maktaba Wahhabi

274 - 377
یہ فرمائیں کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اسے مرفوع بیان کرنے میں منفرد ہیں جبکہ کتاب الحج (ج ۲ ص ۲۹۹) کے بالکل آخر میں ٹھیک ۲۳۰ ؍احادیث پہلے ایمن عن عبیدالله کی سند سے اسے مرفوع بھی بیان کرتے ہیں ۔ امام دارقطنی رحمہ اللہ کے مقام و مرتبہ کے یہ بات بالکل منافی ہے کہ چند روایات کے بعد اس کے تفرد کا حکم لگائیں۔ پھر علامہ زیلعی رحمہ اللہ نے اگر ایمن بن نابل نقل کیا ہے تو التعلیق المغنی میں ایمن بن نائل ہے جب کہ الداریہ میں ایمن ابن ام نابل ہے اور یہ دونوں صحیح نہیں ، صحیح نام ایمن بن نابل ہے جیسا کہ نصب الرایہ (ص ۲۶۵) میں ہے۔ مگر سنن دارقطنی (ج ۲ ص ۲۹۹) میں ’’ابن اسرائیل عن عبیدالله ‘‘ہے ’’ایمن‘‘ نہیں۔ مگر صحیح ابواسرائیل ہے جیساکہ دارقطنی رحمہ اللہ مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت (ج ۲ ص ۵۶۲ ) میں ہے جس کا نام اسماعیل بن خلیفہ ہے۔ والله اعلم۔پھر یہ بھی دیکھیے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے تفرد کا اظہار امام دارقطنی رحمہ اللہ نے ہی نہیں علامہ ابن قطان رحمہ اللہ نے بھی کیا ہے۔ جیسا کہ پہلے اس کی وضاحت گزر چکی ہے ۔ نیز حافظ ابن جوزی رحمہ اللہ نے التحقیق (ج ۲ ص ۱۸۶) میں اور علامہ الذہبی رحمہ اللہ نے تنقیح التحقیق (ج۲ ص ۹۳) میں اور علامہ ابن عبدالہادی نے تنقیح تحقیق احادیث التعلیق (ج ۲ ص ۵۶۳) میں سنن دارقطنی رحمہ اللہ سے یہ روایت نقل کی اور امام دارقطنی رحمہ اللہ سے نقل کیا کہ اسے مرفوع بیان کرنے میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ منفرد ہیں۔ سنن دارقطنی رحمہ اللہ ہی نہیں بلکہ امام دارقطنی رحمہ اللہ نے کتاب الافراد میں بھی اس روایت کو ذکر کیا اور فرمایا کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اس کو مرفوع بیان کرنے میں منفرد ہیں۔ جیسا کہ اطراف الغرائب والافراد (ج۴ ص ۵۰) میں ہے۔ اس سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ کتا ب الحج کے اواخر میں اس کا کسی اور سند سے ہونا محل نظر ہے۔ بالخصوص جب کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اتحاف المہرۃ (ج ۹ ص ۶۶۹) میں یہ روایت نقل کی، مگر کتاب الحج سے اس کی دوسری سند نقل نہیں کی ، جس سے اس شبہ کو مزید تقویت ملتی ہے کہ اس روایت کا کتا ب الحج میں ہونا محل نظر ہے ۔ ممکن ہے کہ بعض نسخوں میں یہ روایت ہو جس کی بنیاد پر علامہ زیلعی رحمہ اللہ نے اسے نقل کیا اور وہی نسخہ مطبوعہ صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ بالفرض اگر یہ صحیح ہے تو پھراس سے امام صاحب کا تفرد ختم ہو جاتا ہے۔والله سبحانہ و تعالیٰ اعلم بالصواب۔!
Flag Counter