Maktaba Wahhabi

262 - 377
بغداد : ۱؍۳۱۲) (ایک نظر: ص ۳۰۵) حالانکہ تاریخ کے محولہ صفحہ میں خطیب نے انھیں قطعاً المتعنت قرار نہیں دیا بلکہ ان کے ترجمہ میں لکھا ہے: کان واحد عصرہ فی الحفظ والاتقان والورع کہ وہ اپنے زمانہ میں حفظ ، اتقان اور ورع میں یکتا تھے(تاریخ بغداد: ۸؍۷۱) اس محولہ صفحہ میں دراصل خطیب نے ایک روایت کے بارے میں حافظ ابو علی رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے ۔ چنانچہ ان سے محمد بن عبدالله النیساپوری نے مالک عن الزھری عن انس ان النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم اھدی جملا کان لابی جھل کے بارے میں پوچھا گیا توانھوں نے فرمایا: یہ روایت باطل ہے۔ میں ( محمد بن عبدالله النیسابوری) نے کہا اسے یعقوب رحمہ اللہ بن الاخرم ،سوید رحمہ اللہ بن سعید سے روایت کرتے ہیں۔ انھوں نے فرمایا : اس نے اس میں غلطی کی اور کسی نے اس کی متابعت نہیں کی۔ میں نے کہا اسے تو آپ کے شیخ احمد رحمہ اللہ بن الحسن الصوفی بھی سوید رحمہ اللہ سے روایت کرتے توانھوں نے اس پر شدید انکار کیا اور فرمایا اسے کون بیان کرتا ہے؟ میں نے کہا: ابوالفتح ابن بنت ابی القاسم ، انھوں نے فرمایا میں ابولفتح کو جانتا ہوں وہ ایسا طبل ہے جسے معلوم نہیں ہوتا کہ اس کے سرسے کیا نکل رہا ہے۔ میں نے کہا: ابوبکر رحمہ اللہ اسماعیلی پر آپ راضی ہیں، انھوں نے فرمایا :وہ امام ہیں۔ میں نے کہا: انھوں نے بھی یہ حدیث،احمد رحمہ اللہ بن حسن الصوفی سے روایت کی ہے۔ جس پر وہ خاموش ہو گئے۔ یہ واقعہ نقل کرنے کے بعد خطیب رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ابو رحمہ اللہ الفتح کے بارے میں مجھے توخیر کی خبر ہی ملی ہے اور احمد رحمہ اللہ بن الحسن الصوفی کی یہ حدیث مشہور ہے۔ ان سے ایک جماعت نے روایت کی ہے ۔ ہم ا سے ان شاء الله اس کے محل پر ذکر کریں گے۔ اب خوردبین لگا کر بھی دیکھ لیں ساری کہانی میں متعنت کا لفظ کہا ں ہے ؟زیادہ سے زیادہ یہی بات ہے کہ ابو رحمہ اللہ الفتح کے بارے میں حافظ اسماعیلی اچھی رائے نہیں رکھتے جب کہ خطیب کہتے ہیں مجھے اس کے بارے میں خیر کی خبر ملی ہے۔ متعنت لفظ کہاں سے آ گیا؟ مزید برآں امام ابوعلی رحمہ اللہ نیسابوری نے اگراس روایت کو باطل قرار دیا ہے تو کیا خطیب رحمہ اللہ نے اسے حسن یا صحیح کہا ہے ؟ قطعاً نہیں بلکہ تاریخ (ج ۴ ص ۸۴) میں احمد بن الحسن الصوفی کے ترجمہ میں اس روایت پر تفصیلاً بحث کی اور خود ان کا تبصرہ یہ ہے کہ سوید رحمہ اللہ بن سعید پر اس
Flag Counter