Maktaba Wahhabi

251 - 377
کہا:’’ مالک یتکلم فی سعد‘‘ کہ امام مالک ،سعد ---جو سادات قریش میں سے ہیں--میں کلام کرتے ہیں۔ بتلائیے یہ کلام کیا ہے ؟ امام احمد رحمہ اللہ سے جب کہا گیا کہ امام مالک رحمہ اللہ سعد سے روایت نہیں کرتے توانھوں نے فرمایا: اس کی طرف کون التفات کرتا ہے،سعد ثقہ صالح ہیں (تہذیب :۳؍۴۶۵) پھر اس بات کا اعتراف تو محدث ساجی کو بھی ہے ۔ امام مالک رحمہ اللہ نے سعد رحمہ اللہ سے روایت نہیں لی بلکہ ان کی روایت چھوڑ دی۔ جبکہ یہ بات تو مشہور ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ سے ایک راوی کے بارے میں پوچھا گیا توانھوں نے فرمایا: اس کا ذکر میری کتابوں میں دیکھا ہے؟ تو سائل نے عرض کیا نہیں۔ امام مالک نے فرمایا: لو کان ثقۃ لرأیتہ فی کتبی اگرثقہ ہوتا تو اس کا ذکر میری کتابوں میں ہوتا (تہذیب : ۱۰؍۷، مقدمہ مسلم ص ۱۹)۔ اسی طرح امام ابن رحمہ اللہ حبان فرماتے ہیں: اعرض عمن لیس بثقۃ فی الحدیث و لم یکن یروی الا ما صح ولا یحدث الا عن ثقۃ ۔ (تہذیب: ۱۰/۹ وغیرہ) کہ امام مالک رحمہ اللہ ہر اس راوی سے اعراض کرتے جو ثقہ نہ ہوتا اور صحیح حدیث ہی بیان کرتے اور صرف ثقہ راوی سے ہی روایت کرتے۔‘‘ لہٰذا جب امام مالک رحمہ اللہ نے سعد رحمہ اللہ سے روایت ترک کر دی تو اسے ضعیف سمجھتے ہوئے ایسا کیا۔ یوں نہیں کہ انھوں نے ثقہ سمجھتے ہوئے ترک کر دی۔ وہ تو راوی کے بارے میں توثیق کی علامت اپنی کتابوں کو قرار دیتے ہیں کہ ان میں اس کا ذکر ہے تو ثقہ ورنہ ضعیف یا مجہول ہے،اور وہ ضعف خواہ مذہبی بنیا دپر ہو یا معاصرت کی منافرت پر مبنی ہو۔مگر ڈیروی صاحب اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے کہ امام مالک رحمہ اللہ نے سعد سے روایت ترک کر دی تھی۔ پھر بھی امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک اسے ثقہ قرار دینے کا تاثر دے رہے ہیں حالانکہ بالصراحت منقول ہے کہ کان مالک یتکلم فیہ امام مالک رحمہ اللہ اس میں کلام کرتے تھے۔ علامہ ابو الولید الباجی نے التعدیل والتجریح (ج ۳ ص ۱۱۰۲ ) میں سعد بن ابراہیم کے سلسلے میں جو بے اعتدالی دکھائی اس کی تفصیل کا تو یہاں موقع و محل نہیں البتہ اس سلسلے میں
Flag Counter