Maktaba Wahhabi

232 - 377
روایت کو انھوں نے مرسل قرار دیا ہے۔ مگر موقف کی مخالفت میں ’’تاریخ اور مغازی‘‘ کے امام کی بات پھر بھی مردود ہے۔ تلک اذا قسمۃ ضیزی۔ رہی وہ روایت جسے ڈیروی صاحب نے طبرانی کبیر (ج۱ ۱ ص ۳۱) کے حوالے سے ذکر کیا ہے مگر افسوس !انھوں نے اس کی سند کے بارے میں کوئی جملہ نہیں کہا ، آخر ع کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے حالانکہ اس کی سند کا راوی علی بن سعید الرازی کمزور ہے۔ امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: لیس بذاک تفرد باشیائ کہ وہ لیس بذاک ہے، بہت سی چیزوں میں متفرد ہے۔ ابن یونس فرماتے ہیں:’’ تکلموا فیہ‘‘ محدثین نے اس میں کلام کیا ہے۔ حمزہ بن یوسف نے جب امام دارقطنی رحمہ اللہ سے پوچھا کہ وہ حدیث میں کیسا ہے تو انھوں نے فرمایا: اس نے کئی حدیثیں ایسی بیان کی ہیں جن میں کسی نے بھی اس کی موافقت نہیں کی۔ مصر میں ہمارے اصحاب اس پر کلام کرتے تھے۔ پھر انھوں نے ہاتھ کو جھاڑتے ہوئے فرمایا:’’ لیس بثقۃ‘‘ وہ ثقہ نہیں۔ میزان (ج ۳ ص ۱۳۱)، لسان (ج ۴ ص ۲۳۱)، السیر(ج ۱۴ ص ۱۴۵) ۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے المغنی (ج ۲ ص ۴۴۸) میں بھی اسے ذکر کیا ہے اور امام دارقطنی رحمہ اللہ کی جرح نقل کی ہے، البتہ مسلمۃ بن قاسم نے اسے ثقہ کہا ہے۔ لیکن مسلمہ خود ضعیف ہے(لسان : ج ۶ ص ۳۵) قطع نظراس کے کہ اس روایت میں اضطراب بھی ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری (ج ۱۲ ص ۱۰۳) میں کہا ہے۔ اس کی ربع دینار میں ہاتھ کاٹنے سے کوئی جوہری مخالفت نہیں اور یہ فرق ڈھال کی قیمت یا ڈھال کی نوعیت مختلف ہونے کی بنا پر ہو سکتا ہے۔ لہٰذا ڈھال کی قیمت دس درہم پر ہاتھ کاٹا گیا تو ایسی ڈھال کی چوری پربھی ہاتھ کاٹا گیا جس کی قیمت ربع دینار تھی۔ یہاں اس مسئلہ کی تفصیل مقصود نہیں، بتلانا صرف یہ ہے کہ علمائے احناف ابن رحمہ اللہ اسحاق کی اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں اور اسے حسن یا صحیح بھی قرار دیتے ہیں بلکہ مولانا ظفر احمد رحمہ اللہ عثمانی نے یہی روایت سنن نسائی کے حوالے سے ذکر کی اور فرمایا: سکت عنہ فھو صحیح عندہ و قال الزیلعی رواہ الحاکم
Flag Counter