Maktaba Wahhabi

228 - 377
اسی طرح یہ (ایک نظر ص ۱۰۳) میں بھی ان کا جھوٹ ہے کہ راقم نے توضیح الکلام جلد اول کی طبع ثانی میں خاتمۃ الکلام کو دیکھ کر کچھ ترمیم کر لی، حالانکہ خاتمۃ الکلام آج تک راقم نے دیکھی تک نہیں۔واللّٰه علی ما نقول شھید مزید برآں امام حاکم رحمہ اللہ نے نافع رحمہ اللہ کی روایت کو ’’صحیح الاسناد‘‘ کہا ہے۔ا ورعبدالله بن عمرو بن حسان الواقعی کی روایت کو انھوں نے ہی ’’صحیح الاسناد‘‘ نہیں کہا بلکہ امام ابوعوانہ رحمہ اللہ نے بھی المستخرج میں اس سے روایت لی ہے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی حدیث جسے امام عقیلی نے الضعفاء میں ذکر کیا ہے اور علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی ان کے حوالہ سے میزان میں اسے نقل کیا جس کے الفاظ ہیں: لا تقبل صلاۃ بغیر طھور ولا صدقۃ من غلول امام ابوعوانہ رحمہ اللہ نے اپنی الصحیح میں (ج ۱ص ۲۳۶) میں یہی روایت ذکر کی ہے۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ عبدالله بن عمرو،امام ابوعوانہ رحمہ اللہ کے ہاں بھی قابل اعتبار ہے۔ بلکہ مولانا صفدر صاحب نے تو لکھا ہے کہ ابوعوانہ رحمہ اللہ کی تمام حدیثیں صحیح ہیں۔۔۔ بھلا صحیح ابوعوانہ کے یہ ضعیف راوی کیسے ہو سکتے ہیں(حاشیہ احسن : ج ۱ ص ۱۹۱) ۔ اس اعتبار سے بھی دیکھا جائے تو عبدالله بن عمرو کی بیان کردہ نافع کی یہ دوسری روایت ان دونوں حضرات کے نزدیک تو قابل قبول ہے۔ مگر اس ضمنی توثیق کے مقابلہ میں چونکہ عبدالله بن عمرو پر امام علی رحمہ اللہ بن مدینی وغیرہ سے سخت جرح ثابت ہے۔ اس لیے ان کی یہ توثیق وتعدیل معتبر نہیں۔ اسی بنا پر ہم نے توضیح (ج ۱ ص ۳۵۹) میں وضاحت کر دی کہ ’’یہ سند صحیح نہیں‘‘ حافظ ذہبی نے تلخیص المستدرک میں اس پر نقد کیا ہے مگر میزان الاعتدال (ج ۲ ص ۴۶۸) میں یہی روایت نقل کی جس کے آخر میں لکھا ہے : رواہ الحاکم فی مستدرکہ و صححہ کہ اسے حاکم نے اپنی مستدرک میں روایت کیا ہے اور اسے صحیح کہا ہے۔ مگر میزان میں امام حاکم رحمہ اللہ پر کوئی تعاقب نہیں کیا۔ اگر یہ روایت فی الواقع موضوع ہے جیساکہ انھوں نے تلخیص المستدرک میں کہا ہے تو میزان میں اس موضوع روایت کو نقل کرکے حاکم کی تصحیح نقل کرنا اور اس پر کوئی کلام نہ کرنا چہ معنی دارد؟ علاوہ ازیں راقم نے یہ بھی عرض کیا کہ جب نافع رحمہ اللہ بن محمود ثقہ ہے جیسا کہ علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی الکاشف میں اس کا اعتراف کیا ہے تواس کا ایک ہی روایت بیان کرنا باعث جرح
Flag Counter