Maktaba Wahhabi

197 - 377
بارآیا ہے اور عرب اس سے تکثیر واضافہ کا وصف لیتے ہیں جیسے الله تعالیٰ کے فرمان میں ہے کہ اگر آپ ان کے لیے ستر بار بھی بخشش کی دعا کریں الله تعالیٰ انھیں ہرگز نہیں بخشے گا۔ لہٰذا یہ تعداد کو محدود کرنے کے لیے نہیں۔ جب حقیقت یہ ہے تو اب یہ نہیں کہا جا سکتا کہ شیخ الحدیث کے منصب پر فائز بزرگ اتنی سی حقیقت سے بھی بے خبر ہوں گے لیکن جب حقائق کو اپنے تعصب کی بھینٹ چڑھا دیا جائے اور سادہ لوح حضرات کو ورغلانے اور دھوکا میں رکھنے کا مشغلہ اپنا لیا جائے تو پھر ایسی حقیقتوں سے صرف نظر کے بغیر چارہ ہی کیا ہوتا ہے۔ انصاف شرط ہے کہ امام ابن عیینہ رحمہ اللہ کے اس قول کو ’’خالص جھوٹ‘‘ قرار دینا کسی اعتبار سے بھی درست ہو سکتا ہے؟ قارئین کرام کی مزید تشفی کے لیے عرض ہے کہ امام سفیان بن عیینہ کا ہی ایک قول مزید ملاحظہ فرمائیں۔ امام احمد رحمہ اللہ بن حنبل فرماتے ہیں: حدثنا سفیان قال سالتہ عن حدیث (یعنی ابا اسحاق) فقال حدثنی صلۃ منذ سبعین سنۃ قال سفیان و حدثنی ھو ھذا من اکثر من سبعین سنۃ۔ (الجامع مع العلل ومعرفۃ الرجال : ج ۱ ص ۱۶۶،۱۶۷ ، الجامع لاخلاق الراوی : ج ۲ ص ۹۳) ہم سے سفیان رحمہ اللہ نے بیان کیا کہ میں نے ابواسحاق رحمہ اللہ سے ایک حدیث کے بارے میں سوال کیا توانھوں نے فرمایا مجھے صلہ رحمہ اللہ بن زفر نے ستر سال سے یہ حدیث بیان کی اور سفیان رحمہ اللہ نے کہا ابواسحاق رحمہ اللہ نے یہ ستر سال سے زیادہ عرصہ ہوا یہ حدیث مجھے بیان کی ۔‘‘ اب دیکھیے امام سفیان رحمہ اللہ بن عیینہ رحمہ اللہ ۱۰۷ھ میں پیدا ہوئے اور ۱۹۸ھ میں فوت ہوئے (تہذیب: ج ۴ ص ۱۱۹،۱۲۰) جب کہ ان کے استاد ابواسحاق عمرو رحمہ اللہ بن عبدالله ۲۹ یا ۳۲ھ میں پیدا ہوئے اور حسب اختلاف ۱۲۶،۱۲۷ یا ۱۲۹ھ میں فوت ہوئے۔ بایں طور پر ابو اسحاق رحمہ اللہ کی وفات کے وقت امام سفیان رحمہ اللہ کی کل عمر تقریباً بیس بائیس سال بنتی ہے۔ لہٰذا ستر سال سے ابواسحاق رحمہ اللہ سے سننے کے کیا معنی؟ اسی طرح صلۃ رحمہ اللہ بن زفر ،مصعب بن زبیر کے دور میں جب وہ عراق کے امیر تھے فوت
Flag Counter