Maktaba Wahhabi

178 - 377
یحی والثوری وابوعبیدۃ الحداد اخشی ان یکون ضعیف الحدیث اس سے یحییٰ قطان رحمہ اللہ ، سفیان ثوری رحمہ اللہ اور ابوعبیدہ حداد رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں ۔ میں ڈرتا ہوں کہ وہ ضعیف الحدیث ہے(العلل ومعرفۃ الرجال : ج ۲ ص ۱۵۹) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تہذیب (ج ۲ ص ۱۰۹) اور امام عقیلی نے بھی الضعفاء (ج ۱ ص ۱۸۹) میں یہ قول نقل کیا ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ نے لیس بقوی فی الحدیث بھی کہا ہے( تہذیب) اور ان کا یہ قول العلل ومعرفۃ الرجال (ج ۲ ص ۱۳۵) اور بحر الدم ص ۳۵ میں بھی موجود ہے۔ غور فرمائیے امام احمد ،جعفر رحمہ اللہ سے امام یحییٰ قطان رحمہ اللہ وغیرہ کی روایت لینے کے باوجود اس کے بارے میں ضعیف الحدیث ہونے کا خدشہ ظاہر کرتے ہیں ۔ اسی طرح حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی امام حاکم رحمہ اللہ کی اقتدامیں جعفر کو ثقہ کہا ہے۔ حالانکہ الکاشف (ج ۱ ص ۱۸۷) میں امام احمد رحمہ اللہ کا کلام ، دیوان الضعفاء (ص ۵۰ ) اور المغنی(ج۱ ص ۱۳۵) میں امام نسائی رحمہ اللہ کاکلام لیس بالقوی نقل کیا ہے۔ کوئی جملہ توثیق کا نقل نہیں کیا۔ جو راوی ثقہ ہو اس کے بارے میں ان مختصرات میں ایک جملہ بھی نہ لکھنا چہ معنی دارد؟ ڈیروی صاحب یک طرفہ ہی نہ سوچیں۔ اس پہلو پر بھی نظر رکھیں ۔ اور اس بات کی طرف ہم پہلے ہی توضیح الکلام (ج ۲ ص ۳۴۱،۴۴۷) میں اشارہ کرآئے ہیں کہ علامہ ذہبی رحمہ اللہ سے تلخیص میں امام حاکم کی موافقت میں کئی مقامات پر تسامح ہوا ہے۔ ڈیروی رحمہ اللہ صاحب نے اس پر توجہ ہی نہیں کی۔علاوہ ازیں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام حاکم رحمہ اللہ کے اسی قول پر کہ ’’یحییٰ بن سعید ثقہ سے ہی روایت کرتے ہیں‘‘ تعاقب کیا ہے ھو کذلک لکن عندہ و قد قال احمد والنسائی فیہ لیس بقوی۔‘‘ یہ اسی طرح (ثقہ ) ہے لیکن امام یحییٰ رحمہ اللہ کے نزدیک مگر امام احمد رحمہ اللہ اور نسائی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ وہ قوی نہیں۔ (موافقۃ الخبر الخبر :ج ۱ ص ۴۲۲) نیز دیکھیے الثقات لابن شاہین (ص ۲۷۰)۔ اسی طرح امام ترمذی رحمہ اللہ نے جامع ترمذی(ج ۴ ص ۳۷) مع التحفہ میں اس کی حدیث کو ’’ حسن غریب صحیح‘‘ کہا ہے۔ جیسا کہ متداول نسخوں میں ہے، تواس بارے عرض ہے کہ امام ترمذی رحمہ اللہ کا تساہل معروف ہے جیسا کہ ڈیروی صاحب کے شیخ مکرم نے بھی احسن الکلام (ج ۲ ص ۱۰۴) میں فرمایا ہے۔ نیز علامہ مزی رحمہ اللہ نے تحفۃ الاشراف (ج ۲ ص ۸۱) میں
Flag Counter