Maktaba Wahhabi

172 - 377
کہا؟ قطعاً نہیں۔ بلکہ معنوی طور پر ’’فی نفسہٖ‘‘ قراء ت کرنے کا مفہوم بتلایا۔اور اس سے تو ان حنفی بزرگوں کی تردید ہوتی ہے جو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے فتویٰ ’’ اقرأ بھا فی نفسک‘‘ کہ اپنے نفس میں فاتحہ پڑھو، کو تدبر پر محمول کرتے ہیں کہ ’’ قــراء ۃ فی النفس جب تک زبان سے حرکت نہ کرے وہ قراء ت ہی نہیں۔‘‘ غالباً علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے یہ سمجھا ہے کہ اس حدیث میں دل میں پڑھنے سے مراد تدبر ہے، جیسا کہ بعض علمائے احناف کہتے ہیں حالانکہ قراء ت فی النفس زبان کی حرکت کے بغیر نہیں ہوتی۔ تو یہ محض دفع الوقتی ہے۔ جس چیز کا پڑھنا مطلوب ہو اس کی ادائیگی محض تدبر سے ہوتی ہی نہیں۔ اس لیے علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ کے اس قول کو تردید سمجھنا اور اس بنا پر اسے ضعیف قرار دینا سراسر دھوکا ہے۔ البتہ علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے استذکار (ج ۲ ص ۱۹۰) میں فرمایا ہے کہ ’’ ان حدیث محمد بن ابی عائشۃ منقطع مرسل‘‘ محمد بن ابی عائشہ کی حدیث منقطع مرسل ہے۔ یہ اس لیے کہ استذکار میں ’’محمد بن ابی عائشۃ ان رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم ‘‘ہے کہ محمد بن ابی عائشہ براہ راست اسے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں حالانکہ التمہید (ج ۱۱ ص ۴۵) میں یہ قطعاً منقطع مرسل نہیں، بلکہ’’ محمد بن ابی عائشۃ عمن شھد ذلک قال صلی النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم ‘‘ ہے۔ یعنی محمد بن ابی عائشہ اس سے روایت کرتے ہیں جو اس واقعہ میں شریک تھے اور اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی تھی۔ لہٰذا یہ منقطع مرسل نہیں اور خود علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے لکھا ہے: لا فرق بین ان یسمی التابع الصاحب الذی حدثہ اولا یسمیہ فی وجوب العمل بحدیثہ لان الصحابۃ کلھم عدول مرضیون ثقات اثبات وھذا امر مجتمع علیہ عند اھل العلم بالحدیث۔ (التمھید : ج ۲۲ ص ۴۷) ’’تابعی نے جس صحابی سے روایت لی ہے وہ اس کا نام لے یا نہ لے اس کی حدیث پر عمل کرنے کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں۔ کیونکہ صحابہ رضی اللہ عنہم سب کے سب عادل پسندیدہ ثقہ وثبت ہیں اور یہ بات حدیث کا علم رکھنے والوں کے ہاں متفق علیہ ہے۔‘‘
Flag Counter