Maktaba Wahhabi

147 - 377
سورتیں کلام الٰہی اور آنحضرت صلی الله علیہ وسلم پر منزل تو ہیں مگر قرآن مجید کا جزء نہیں بلکہ قرآن مجید قل ھو الله پر تمام ہوگیا۔ اور یہ دونوں سورتیں بطور تعویذ و حفاظت کے نازل ہوئی ہیں اور اسی لیے وہ ان کو اپنے قران میں نہیں لکھتے تھے۔ یہ ہرگز نہیں کہ وہ ان کو کلام الٰہی اور منزل من الله نہیں جانتے تھے اور جس نے ان کی نسبت یہ خیال کیا ہے یہ اس کی سخت غلط فہمی ہے۔ مگر جمہور صحابہ رضی اللہ عنہم ان کے مخالف ہیں۔ سب نے عبدالله بن مسعود رضی اللہ عنہ کے اس قول کو غلط ٹھہرایا دیا تھا اور جمہور کے دلائل بہت سے ہیں۔ ازاں جملہ وہ حدیث ہے کہ جس کو بخاری واحمد ونسائی وغیرہ معتبر محدثین نے بسند صحیح نقل کیا کہ زربن حبیش کہتے ہیں کہ میں نے ابی بن کعب رضی الله عنہ سے ان دونوں سورتوں کی بابت سوال کیا ۔ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے بھی رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ مجھے جیسا جبرائیل علیہ السلام نے کہا ویسا ہی میں نے کہا۔ یعنی ان کو بھی جبریل لائے ہیں اور یہ بھی قرآن کا جز ہیں۔ ابی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم بھی وہی کہتے ہیں جو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اور دوسری حدیث صحیح وہ ہے جس کو مسلم و ترمذی و نسائی وغیرہ محدثین نے بسند صحیح نقل کیا ہے۔ عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ آج کی رات مجھ پر ایسی آیتیں نازل ہوئی ہیں کہ جن کی مثل اب تک میں نے نہیں دیکھی تھیں: قل اعوذ برب الفلق و قل اعوذ برب الناس بعض علماء فرماتے ہیں کہ عبدالله بن مسعود رضی اللہ عنہ بھی جزء قرآن سمجھتے تھے ، مگر الحمد کی طرح ان کو بھی اکثر پڑھا کرتے تھے۔ اس لیے ان کو لکھنے کی ضرورت نہ سمجھی تھی۔ اس نہ لکھنے کی وجہ سے لوگوں نے خیال کر لیا کہ وہ ان کو جزء قرآن نہیں سمجھتے تھے اور بات بھی اصل یہی معلوم ہوتی ہے ۔ مگر اس بحث سے قرآن مجید میں تحریف کا شبہ پیش کرنا ور اپنے اوپرسے الزام تحریف اٹھانے کے لیے اس بحث کو دکھانا محض بے فہمی ہے اور کیونکر تحریف کا الزام قائم ہو سکتا ہے جب کہ یہ سورتیں مصحف میں لکھی ہوئی تھیں اور سب صحابہ رضی اللہ عنہم ان کو یاد رکھتے تھے۔ نماز میں پڑھتے تھے۔ اگر کسی وجہ خاص سے اپنی کتاب میں کسی نے نہیں لکھا تو کیا قرآن مجید سے خارج سمجھی جائیں گی یا تردد سمجھا جاوے گا، ہر گز نہیں۔(تفسیر حقانی : ج ۴ ص ۴۳۹،۴۴۰)
Flag Counter