Maktaba Wahhabi

91 - 331
صحیح بخاری میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب یہ آیت نازل ہوئی کہ ’’اپنے قریبی رشتہ داروں کو اللہ کے عذاب سے ڈرائیے‘‘ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر فرمایا:’’اے قریش کی جماعت! اپنی جانوں کو بچاؤ،کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں میں تمہارے کسی کام نہ آؤں گا۔اے چچا عباس بن عبدالمطلب! اے پھوپھی صفیہ رضی اللہ عنہا ! اپنی جانوں کو بچا لو،میں اللہ تعالیٰ کے ہاں تمہارے کسی کام نہ آؤں گا۔اے میری بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا ! میرے مال میں سے جو چاہے مانگ لے لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں تیرے کام نہ آؤں گا۔‘‘ قولہ:اِشْتَرُوْا اَنْفُسَکُمْ:کا مطلب یہ ہے کہ:توحید کا اقرار کرے،عبادت میں دولت خلوص سے مالا مال ہو کر،شرک سے اجتناب کر کے،اس کے حکموں کو مان کر اور اس کی منع کی ہوئی اشیاء سے رُک کر اپنے آپ کو عذابِ الٰہی سے بچا لو کیونکہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات حاصل کرنے کا ذریعہ ان ہی احکام پر عمل پیرا ہونا ہے۔حسب و نسب پر اعتماد کسی کام نہ آئے گا۔اس کو اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی وقعت حاصل نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس ارشادِ گرامی میں ان لوگوں کی تردید ہوتی ہے جو انبیاء و صالحین کے فوت ہو جانے کے بعد اُن سے مصائب و مشکلات میں امداد کے متمنی ہوتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ ان کی سفارش کرتے ہیں،ان کو نفع پہنچاتے ہیں یا ان کی تکالیف کو دور کرتے ہیں۔حقیقت میں یہی وہ شرک ہے جس کی وضاحت کی غرض سے اور جس کے انجام بد سے آگاہ کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری وضاحت سے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے اگر کوئی چیز بچا سکتی ہے تو وہ صرف ایمان بالله اور عمل صالح ہے۔اس کے علاوہ اور کوئی شے ذریعہ نجات نہیں بن سکتی۔ جب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی پیاری بیٹی،اپنی لخت ِ جگر،اپنے مہربان چچا،اپنی پھوپھی اور اپنے عزیز ترین رشتہ داروں کو نفع نہیں پہنچا سکتے تو ان کے علاوہ دوسرے افرادِ اُمت کی کیا حیثیت اور وقعت باقی رہ جاتی ہے؟ خصوصاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابوطالب کے واقعہ میں تو اہل بصیرت اور عقلمندوں کے لئے بڑی عبرت اور نصیحت کا سامان پنہاں ہے۔ ان لوگوں پر سخت افسوس ہوتا ہے جو مردوں کے پاس اپنی حاجات اور مشکلات لے جاتے ہیں اور ان کے مشاہد و قبور پر اُمید و خوف کے ملے جلے جذبات سے کامل توجہ اور انکساری کے ساتھ حاضری دیتے ہیں
Flag Counter