Maktaba Wahhabi

62 - 331
کے لیے اس درخت پر لٹکایا کرتے تھے۔سیدنا ابو واقد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں چلتے چلتے ہم ایک بیری کے درخت کے پاس سے گزرے تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ جیسے ان مشرکین کے لیے ذاتِ انواط ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے بھی ایک ذاتِ انواط مقرر فر ما دیجئے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اَللّٰہُ اَکْبَر کہااورفرمایا:اللہ کی قسم! تم بالکل وہی بات کہہ رہے ہو جو بنی اسرائیل نے جناب موسیٰ علیہ السلام سے کہی تھی کہ ’’اے موسیٰ علیہ السلام ! ہمارے لیے بھی کوئی ایسا معبود بنا دے جیسے ان لوگوں کے معبود ہیں۔‘‘ موسیٰؑ نے کہا ’’تم لوگ بڑی نا دانی کی باتیں کرتے ہو۔‘‘(پھرفرمایا)تم بھی اگلی اُمتوں کے طریقوں پر چلو گے۔(رواہ الترمذی و صححہ)۔ مشرکین اُس درخت کی عظمت و جلالت کے پیشِ نظر اسکے پاس بیٹھنا باعث بر کت سمجھتے تھے۔یعنی برکت حاصل کرنے کی نیّت سے اس درخت پر اپنے ہتھیار لٹکاتے تھے۔ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ اس لیے کہا کہ ان کے ذہن میں یہ بات پیدا ہوئی کہ یہ بھی عند اللہ پسندیدہ عمل ہے لہٰذا ہم بھی تبرّک حاصل کیا کریں۔اگر ان کو یہ علم ہوتا کہ یہ شرک ہے تووہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی کیسے جرات کر سکتے تھے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اِس بات کو بنی اِسرائیل کے قول سے مشابہ قرار دیا ہے کیونکہ دونوں نے الہٰ طلب کیا تھا جس کی وہ اللہ تعا لیٰ کے سوا عبادت کریں۔دونوں کے مطالبہ کے الفاظ اگرچہ مختلف ہیں تاہم معنیٰ ایک ہی ہیں کیونکہ الفاظ کی تبدیلی سے حقیقت تو تبدیل نہیں ہو جاتی۔ زیرِ بحث حدیث میں شِرک سے بچنے کی تعلیم دی گئی ہے کیونکہ بسا اوقات اِنسان کسِی کام کو بہتر سمجھ کر سرانجام دیتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ اس سے اللہ تعا لیٰ کا قُرب حاصل ہو گا،لیکن در حقیقت وہ عمل انسان کو،اللہ تعالیٰ اور اُس کی رحمت سے دور اور اس کی ناراضگی اور غضب کو قریب کر رہا ہوتا ہے۔اس حقیقت کو وہی شخص سمجھ سکتا ہے جس نے علماء سو،عُبّاد ِقُبور،اس میں غلّوکرنے والوں اور ان کی عبادت کرنے والوں کو غور سے دیکھا ہو،کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ بہت بہتر اعمال سر انجام دے رہے ہیں حالا نکہ وہ ایسے گناہ میں مبتلا ہیں جس کو اللہ تعالیٰ معاف نہیں کرے گا۔اس بحث سے یہ معلوم ہوا کہ: ۱۔جو شخص اولیائے کرام کی قبروں پر اعتکاف کرتا یا کسی شجر و حجر کے پاس جا کر اور وہاں جانور ذبح کرنے کو تبرک خیال کرتا ہے وہ شرک میں مبتلا ہے۔ ۲۔دوسرا مسئلہ یہ معلوم ہوا کہ احکامِ شرعیہ میں معانی کا اعتبار ہے،الفاظ کا نہیں۔اسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے مطا لبے کو بنی اِسرائیل کے مطالبہ کے سا تھ مشابہ اور مماثل قرار دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس
Flag Counter