Maktaba Wahhabi

42 - 331
درمیان کوئی پردہ حا ئل نہیں ہوتا۔(صحیح بخاری و صحیح مسلم)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گویا اس منصب کی تیاری کے مترادف تھا۔غرض یہ تھی کہ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ پہلے سے قلب و ذہن کو اس ذمہ داری کے لئے پوری طرح آمادہ اور تیا ر کرلیں۔ لَا اِلٰہ اِ لَّا اللہ کے اقرار و شہادت کیلئے سات شرائط کا پایا جانا لازمی ہے کلمہ شہادت کا اقرار کرنے والوں میں جب تک یہ شرائط نہ ہوں گی اس وقت تک اس کے فوائد و برکات کا حصول ممکن نہیں ہے: (۱)۔ کلمہ شہادت کا اقرار کرنے والا ایسے علم سے بہرہ مند ہو جو جہالت کی ضد ہے۔ (۲)۔ ایسے یقین سے آراستہ ہو جو شک سے پاک ہو۔ (۳)۔ ایسی پذیرائی سے مالا مال ہو جس میں تردید کا کوئی شائبہ نہ ہو۔ (۴)۔ ایسی اطاعت اس کو نصیب ہو جس میں شرک کا امکا ن نہ ہو۔ (۵)۔ ایسے اخلاص پر فائز ہو جس میں شرک کا کوئی پہلو نہ پایا جائے۔ (۶)۔ صدقِ مقال کا وہ مقام حاصل ہو کہ جس میں کِذب نہ ہو۔ (۷)۔ توحید سے ایسی محبت رکھے جس میں شرک کی مخالفت پائی جائے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:’’شریعت اسلامی کے مطالعہ سے بالبداہت یہ ثابت ہے،نیز ائمہ اسلام کا متفقہ فیصلہ یہ ہے کہ اسلام کی رُوح یا سب سے پہلے انسان جس چیز کا مکلف اور مامور ہے وہ لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰه وَ اَنَّ مُحَمَدًا رَّسُوْلُ اللّٰه کا اقرار ہے۔یہی کلمہ وہ حدِ فاصل ہے جس کے اقرار کے بعد ایک کافر،مسلمان کہلاتا ہے اور دشمن دوست بن جاتا ہے۔یہی وہ کلمہ ہے جس کے اقرار سے پہلے انسان کی جان اور اس کا مال مسلمانوں کے لئے جائز اور مباح تھے،اور اس کے اقرار کے بعد اس کی جان اور مال مسلمانوں پر حرام قرار پائے۔کوئی شخص اگر کلمہ شہادت کا صدقِ دل سے اقرار کرے گا تو ایمان اس کے قلب میں داخل ہو جائے گا اور اسے مومن کہا جائے گا اور اگر کسی شخص نے صرف زبان سے اقرار کیا اور دل میں اس پر یقین نہ کیا تو ایسے شخص کو بظاہر مسلمان ہی کہا جائے گا لیکن حقیقت میں وہ مومن نہ ہو گا۔البتہ جو شخص قدرت اور طاقت کے ہوتے ہوئے اس کلمہ شہادت کا زبان سے اقرار نہ کرے،ایسا شخص بالاتفاق کافر ہے۔اس پر سلف صالحین،ائمہ کرام اور جمہور محدثین کا اتفاق ہے۔‘‘ مذکورہ حدیث سے پتا چلا کہ کلمہ شہادت کے اقرار اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت و نبوت مان لینے کے
Flag Counter