Maktaba Wahhabi

41 - 331
میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوں اور میرے ساتھی بھی۔اور اللہ پاک ہے اور شرک کرنے والوں سے میرا کوئی واسطہ نہیں۔ علامہ ابن القیم رحمہ اللہ آیت اُدْعُ اِلیٰ سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:اللہ تعالیٰ نے مدعّوین کے لحاظ سے اس آیت میں دعوت کے تین درجے بیان فرمائے ہیں:’’طالب حق،جو حق بات پسند کرتا اور ترجیح دیتا ہو بشرطیکہ حق بات اس کے ذہن و قلب میں اُتر جائے۔ایسے شخص کے ساتھ حکمت اور دانائی سے بات کرنی چاہئے،بحث اور جدال سے نہیں۔دوسری صورت یہ ہے کہ سامع باطل میں الجھا ہوا ہے،لیکن اگر کوشش اور محنت کے بعد حق بات اس کی سمجھ میں آجائے تو اسے ترجیح دے گا اور قبول کر لے گا۔ایسے شخص کو ترغیب و ترہیب کے انداز سے نصیحت کرنی چاہئے۔تیسری شکل یہ ہے کہ سامع مقابلے اور عناد پر اتر آیا ہے۔ایسے شخص کو بطریق احسن دلیل سے سمجھانا چاہئے،اگر مان جائے تو فبہا،ورنہ ممکن ہو تو مجادلہ سے بھی کام لیا جاسکتا ہے۔‘‘ عن ابن عباس اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم لَمَّا بَعَثَ مُعَاذًا اِلَی الْیَمَنِ قَالَ لَہُ اِنَّکَ تَاْتِیْ قَوْمًا مِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ فَلَیَکُنْ اَوَّلَ مَا تَدْعُوْھُمْ اِلَیْہِ شھَادَۃُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰه وفی روایۃ اِلٰی اَنْ یُوَحِّدُوا اللهفَاِنْ ھُمْ اَطَاعُوْا لِذٰلِکَ فَاَعْلِمْھُمْ اَنَّ اللّٰه افْتَرَضَ عَلَیْھِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِیْ کُلِّ یَوْمٍ وَّ لَیْلَۃٍ فَاِنْ ھُمْ اَطَاعُوْا لِذٰلِکَ فَاَعْلِمْھُمْ اَنَّ اللّٰه افْتَرَضَ عَلَیْھِمْ صَدَقَۃً تُوْخَذُ مِنْ اَغْنِیَآئِھِمْ فَتُرَدُّ عَلیٰ فُقَرَآئِھِمْ فَاِنْ ھُمْ اَطَاعُوْا لِذٰلِکَ فَاِیَّاکَ وَ کَرَائِمَ اَمْوَالِھِمْ وَ اتَّقِ دَعْوَۃَ الْمَظْلُوْمِ فَاِنَّہُ لَیْسَ بَیْنَھَا وَ بَیْنَ اللّٰه حِجَابٌ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف بھیجا تو فرمایا کہ ’’تمہارا سامنا اہل کتاب سے بھی ہوگا تمہیں چاہیئے کہ سب سے پہلے ان کو کلمہ لَا اِلٰہ اِ لَّا اللہ کی دعوت دو۔‘‘ ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں:’’یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار کرلیں۔‘‘ اگر وہ توحید کا اقرار کر لیں تو پھر ان کو بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں،اگر اس کا بھی اقرار کرلیں تو پھر ان کو بتانا کہ اللہ نے ان کے مال میں زکوٰۃ فرض کی ہے جو مالدار لوگوں سے وصول کرکے فقراء اور مساکین میں مساوی تقسیم کردی جائے۔اگروہ زکوٰۃ ادا کرنے کے لیے تیار ہو جائیں تو ان کے عمدہ مال وصول کرنے سے احتراز کرنا اور مظلوم کی آہ سے ڈرتے رہنا کیونکہ مظلوم کی آہ و پکار اور اللہ تعالیٰ کی ذات کے
Flag Counter