Maktaba Wahhabi

242 - 331
میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا:جو مجھے اب معلوم ہوا ہے اگر پہلے معلوم ہو جاتا تو میں قربانی نہ لاتا اور اگر میرے پاس قربانی نہ ہوتی تو میں احرام کھول دیتا۔‘‘ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں:’’میں جو تمہیں حکم دیتا ہوں وہی کرو اور اگر میں قربانی نہ لایا ہوتا تو میں بھی وہی کچھ کرتا جس کا تمہیں حکم دے رہا ہوں۔‘‘چنانچہ بعض لوگوں نے جب سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی بات سے صحیح حدیث کا معارضہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے سامنے پیش کیا تو اس وقت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا تھا:’’قریب ہے کہ تم پر آسمان سے پتھر برسیں۔‘‘ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’علمائے کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جب کسی شخص کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد واضح ہو جائے تو اُسے چاہیئے کہ وہ کسی شخص کے قول کی بنا پر ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ترک نہ کرے۔‘‘ امام مالک رحمہ اللہ نے(مدینہ منورہ مسجد نبوی میں درس دیتے ہوئے)فرمایا تھا کہ ’’ہم میں سے ہر شخص کی بات کو ردّ کر کیا جا سکتا ہے اور قبول بھی جا سکتا ہے،مگر(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی طرف اشارہ کر کے فرمایا)اس صاحب قبر کی حدیث کو ترک نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ علمائے کرام وقوعِ مسائل کے وقت ہمیشہ اجتہاد کرتے رہے۔پس جس شخص کا اجتہاد صحیح ہوا اُسے دُہرا اجر ملے گا اور جس شخص نے اجہتاد میں غلطی کھائی اُسے اس کی محنت اور اجہتاد کا اجر ملے گا جیسا کہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں مذکور ہے۔لیکن مجتہد علماء کا یہ دستور تھا کہ جب ان پر کوئی دلیل واضح ہو گئی تو اس پر عمل کر لیا اور اجتہاد ترک کر دیا۔ائمہ کرام نے اجتہاد سے اُس وقت کام لیا جب کہ ان کے علم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صحیح فرمان نہ تھا،یا علم تھا لیکن اس میں دوسرا فرمانِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم بھی موجود پایا تو اس صورت میں اُنہوں نے اجتہاد سے مسئلہ کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش فرمائی۔ ائمہ اربعہ رحمہم اللہ کے دور میں طلب حدیث کی صورت یہ تھی کہ براہِ راست اُستاذ کے پاس جا کر سماع حدیث کی جاتی تھی اور اس سلسلے میں کئی کئی سال کا سفر کر کے حدیث حاصل کی جاتی تھی۔اس کے بعد یہ دَور آیا کہ احادیث کو کتابی صورت میں مُدوّن کر دیا گیا اور باقاعدہ اسناد سے حدیث کو درج کیا جانے لگا۔اور ہر حدیث کے متعلق یہ وضاحت کی گئی کہ یہ صحیح ہے یا حسن ہے یا ضعیف ہے یا موضوع۔فقہائے کرام نے مختلف مذاہب کی روشنی میں باقاعدہ کتابیں تصنیف فرمائیں اور ان میں مجتہدین کے دلائل ذکر کئے جس سے ایک طالب حق کے لیے صحیح راستہ آسانی سے معلوم ہو گیا۔ہر امام نے اپنے اجتہاد کے لیے دلیل کا ذکر کرنا بھی
Flag Counter