Maktaba Wahhabi

241 - 331
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے اور تم کہتے ہو کہ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما نے یوں کہا۔ اس باب میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ جو شخص اللہ کی طرف سے حلال اور حرام کی پرواہ کئے بغیر علماء اور امراء کی اطاعت کرتا ہے وہ مشرک ہے کیونکہ اس نے اللہ کے سوا ان لوگوں کو رب قرار دے لیا ہے۔اس کی دلیل قرآن کریم کی یہ آیت ہے:(ترجمہ)’’انہوں نے اپنے علماء اور پیروں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے اور اسی طرح مسیح ابن مریم کو بھی حالانکہ ان کو ایک معبود کے سوا کسی کی بندگی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا وہ جس کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں،پاک ہے وہ ان مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں‘‘(التوبہ:۳۱)۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ حج تمتع کے قائل نہ تھے،ان کی رائے یہ تھی کہ تمتع سے حج اِفراد افضل ہے اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا موقف یہ تھا کہ تمتع کرنا واجب ہے۔چنانچہ بعض صحابہ کرام نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما تو حج اِفراد کو افضل قرار دیتے ہیں اور آپ تمتع کو کیوں واجب ٹھہراتے ہیں؟ اس کے جواب میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے مذکورہ بالا جملہ ارشاد فرمایا۔ واضح احادیث کے ہوتے ہوئے کسی شخص کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ علمائے کرام یا ائمہ عظام کے دلائل اور ان کے اقول کو ان پر ترجیح دے کیونکہ قرآنِ کریم نے اس بات کا فیصلہ کر دیا ہے:(ترجمہ)’’اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ میں نزاع ہو جائے تو اُسے اللہ اور اُس کے رسول کی طرف پھیر دو۔اگر تم واقعی اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔یہی ایک صحیح طریق کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے۔(النساء:۵۹)۔ تمتع کی افضلیت پر صحیح بخاری ومسلم اور دوسری کتب احادیث میں مندرجہ ذیل حدیث موجود ہے جس
Flag Counter