Maktaba Wahhabi

132 - 331
سے کوئی شخص زیادہ عالم نہ تھا۔امام زین العابدین رحمہ اللہ تابعین میں سے افضل مرتبہ کے مالک تھے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:’’غور کیجئے! یہ حدیث اہل مدینہ اور اہل بیت سے مروی ہے اور یہ وہ بزرگ ہیں جو نسب و مکان کے اعتبار سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب تر ہیں۔لہٰذا ظاہر ہے وہ دُوسروں کی نسبت زیادہ محتاط،اضبط اور قابل حجت ہیں،اس بنا پر اس حدیث کے لائق استدلال ہونے کے بارے میں کون شک و شبہ کا اظہار کر سکتا ہے؟۔‘‘ امام مالک رحمہ اللہ نے اہل مدینہ کے لئے اِس بات کو مکروہ قرار دیا ہے کہ وہ جب بھی نماز کے لئے مسجد میں آئیں،قبر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر سلام کہیں کیونکہ یہ سلف اُمت کا طریقہ نہ تھا۔پھر فرماتے ہیں:’’اِس اُمت کی اصلاح صرف اُن ہی باتوں سے ممکن ہے جن سے قرون اُولیٰ کی اصلاح ہوئی تھی۔‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کا یہ عام دستور تھا کہ وہ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں نماز پڑھنے کے بعد اپنے کاروبار کے لئے نکل جاتے یا بیٹھ جاتے،قبر نبوی کے پاس سلام کے لئے نہ آتے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ مسئلہ معلوم تھا کہ صلوٰۃ و سلام جو ہم نے نماز میں پڑھا ہے وہ کامل اور افضل ترین ہے۔اس کے بعد مزید کسی چیز کی ضرورت نہیں۔قبر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر صلوٰۃ و سلام کہنے یا وہاں نماز پڑھنے یا دُعا وغیرہ کرنے کی شریعت اسلامیہ میں کوئی دلیل نہیں ملتی بلکہ اس سے روکا گیا ہے۔جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:(ترجمہ)’’میری قبر کو عید و میلا گاہ نہ بنا لینا اور تم مجھ پر دُرود بھیجتے رہنا وہ مجھ تک پہنچ جاتا ہے۔‘‘ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ صلوٰۃ و سلام دُور سے ہو یا نزدیک سے بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا دیا جاتا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن لوگوں کو ملعون قرار دیا ہے جو انبیاء علیہم السلام کی قبروں کو مسجد اور عبادت گاہ بنا لیتے ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرۂ مبارک میں ایک دروازہ تھا جس سے انسان اندر جا سکتا تھا اور اس کے بعد ایک دوسری دیوار کا اضافہ کر دیا گیا جس سے ہر شخص اندر داخل ہو سکتا تھا لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حجرۂ مبارک میں قطعاً داخل نہ ہوتے،نہ نماز کے لئے،نہ صلوٰۃ و سلام کے لئے،نہ اپنے یا کسی دوسرے کے لئے دعا کی غرض سے اور نہ کسی حدیث کے بارے میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کے لئے۔نہ شیطان کو یہ جرات ہوئی کہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دل میں اس قسم کا وسوسہ ڈال سکے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے صلوٰۃ و سلام کو سن رہے ہیں تاکہ سننے والے کہیں یہ نہ سمجھ لیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا ہے یا ہم سے گفتگو فرمائی ہے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی حدیث بیان کی ہے یا سلام کا جواب دیا ہے۔
Flag Counter