Maktaba Wahhabi

285 - 331
ڈالیں ۔ تینوں مذاہب یعنی تاؤمت، بدھ مت اور ہندومت کے نظریات جواب تک میں نے پڑھ لیے تھے ان میں مجھے حسن، گہرائی اور ترفع تونظر آیا مگر ان میں سے کوئی بھی میرے ذہن یا جذبات کو مطمئن نہ کرسکا۔ اس وسیع و عریض کائنات میں اور روزمرہ کی زندگی میں جہاں لوگ ا کٹھے رہ رہے ہیں ، یہ تینوں نظریات توازن یا استحکام حاصل نہیں کرسکتے بلکہ پوری طرح ناکام ہیں کیونکہ وہ زندگی کے کسی نہ کسی پہلو کو نظر انداز کردیتے ہیں ۔ تاؤ مت فلسفے کا بانی درویش اور جوگی بن کر دنیا کے دور دراز علاقوں تک پھرتا رہا۔ بدھ نے حق کی تلاش میں اپنی بیوی اور خاندان کو چھوڑ دیا۔ ہندوؤں کی کتابیں بنیادی طور پر فقط اخلاقیات سے تعلق رکھتی ہیں ، مگر کیا اجتماعی معاشرتی زندگی کے تمام انسانی نظریات محض بے بنیاد توہّمات ہیں ؟ (ہندو فلسفہ تو انھیں بے بنیاد توہّم ہی قرار دیتا ہے) اس سوال نے مجھے پریشان کردیا اور میں ان میں سے کسی بھی فلسفے کو فلسفۂ حیات کے طور پر قبول نہ کرسکی۔ اب میرا مسئلہ یہ تھا کہ میں کس بات پر یقین کروں ؟ میں سوچنے لگی کہ زندگی کی حقیقت کیا ہے ؟کیا زندگی کچھ لوگوں کے کہنے کے مطابق محض ایک حادثے کا نتیجہ ہے؟ اس بے چینی اور پریشانی کی وجہ سے میری راتوں کی نیند حرام ہوگئی۔ اس ذہنی کیفیت کے باعث میری سیکنڈری امتحان میں کامیابی اور لندن یونیورسٹی میں میرا داخلہ بھی بے مقصد ٹھہرا، چینی زبان کی تعلیم کا شوق بھی جاتا رہا۔ یہ درست ہے کہ میں نے چینی زبان سیکھنے کی حسرت پوری کرلی، مگر جس سچائی کی مجھے تلاش تھی وہ ابھی بہت دور نظر آتی تھی۔ یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے بعد مجھے مسلمانوں سے متعارف ہونے کا موقع ملا۔ اس سے پہلے میں نے اسلام کے بارے میں کچھ سنا تھا نہ پڑھا تھا۔ حقیقت یہ تھی کہ دوسرے تمام اہل مغرب کی طرح اسلام کے بارے میں میرے دل میں بھی کئی تعصبات اور غلط فہمیاں موجود تھیں ۔ مسلمان طلبہ نے بہت پرسکون اور شائستہ انداز میں اپنے بنیادی عقائد مجھے سمجھائے۔ انھوں نے میرے تمام اعتراضات کے جواب دیے اور مجھے پڑھنے کوکچھ کتابیں بھی دیں ۔ شروع میں صرف فارغ وقت میں ، میں ان کتابوں کی ورق گردانی کرتی رہی۔ مجھے یہ تفریح طبع اور تحقیر وتنقید کا ذریعہ لگتی تھیں لیکن جب میں نے ان کتب کے بعض حصوں کا بغور مطالعہ کیاتو اس
Flag Counter