Maktaba Wahhabi

159 - 331
میرے قبولِ اسلام کی وجوہات میں عہد جوانی ہی سے اسلامی تہذیب کے تمام پہلوؤں بالخصوص شاعری اور فنِ تعمیر سے بہت متاثر رہا ہوں ۔ میں نے اکثر اپنے آپ سے یہ کہا ہے کہ جو لوگ دنیا کو ثقافت کے ہر شعبے میں اتنی حسین اور اہم تخلیقات سے مالا مال کر سکتے ہیں انھوں نے یقینا فلسفہ اور مذہب کے میدانوں میں بھی کمال کی بلندیوں تک رسائی حاصل کی ہو گی۔ جب مجھے عربوں کے رہائشی فنِ تعمیر کا شاہکار’’الحمرا‘‘ یاد آتا ہے تو مجھے یوں لگتا ہے جیسے میں ایک حسین خواب دیکھ رہا ہوں ۔ جیسے کسی جن نے جادو کی چھڑی سے الف لیلہ کے طلسماتی محلوں جیسی یہ عمارت کھڑی کر دی ہو۔ اپنی ساخت کی مضبوطی کے باوجود، بظاہر تقریباً ماند پڑتے حُسن کی حامل عمارت کے پتلے ستونوں پر خالص عربی طرز کے بھاری بھرکم محراب دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ ان ستونوں نے اتنا بھاری بوجھ کیسے اٹھا رکھا ہے۔ میں آپ کی آگاہی کے لیے یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ مسلمانوں نے انسانوں کی پیکر تراشی اور تصویر کشی کے بجائے اپنی تمام تر تخلیقی صلاحیتیں آرائش کے فن پر صرف کر کے بہت اچھا کیا اور اس فن میں عروج تک پہنچے۔ آرائش میں مسلمانوں جتنا تنو ّع رُوئے زمین پر کوئی اور قوم پیدا نہ کر سکی۔ گنبدوں کو سجانے کی حیرت انگیز عربی فنکاری، دیواروں ، ٹائیلوں اور پلیٹوں پر بیل بوٹے بنانے کا فن، دھات کی مصنوعات، فرنیچر ، جلد سازی، بھرائی کا کام اور بے شمار دوسری مصنوعات جو مسلمانوں نے تیار کیں ،آج بھی بے مثال ہیں اور ہمیشہ رہیں گی۔ اطالوی لوگ انسانی پیکر تراشی اور تصویر کشی کے بہت ماہر رہے ہیں ، مگر آرائشی چیزیں بنانے میں وہ عربوں کی برابری کبھی نہ کر سکیں گے۔ جب شاہ چارلس پنجم نے الحمرا میں قدم رکھا تو وہ بے ساختہ چلا اٹھا :’’ اگر بوعبدل (شکست خوردہ بادشاہ ابو عبداللہ جو فرار ہو گیا تھا) کی جگہ میں ہوتا تو فرار ہونے کی بجائے اس خوبصورت عمارت کے ملبے تلے دب کر مرنے کو ترجیح دیتا۔‘‘اس کے بجائے اسے کہنا چاہیے تھا : ’’بوعبدل! اللہ تم پر رحم کرے کہ یہ معجزہ نما محل صحیح سالم چھوڑے جارہے ہو۔‘‘
Flag Counter