میں پہلے لفظ سے لے کر آخر تک کوئی ایسی بات نظر نہ آئی جو محرک عمل اور حوصلہ افزا ہو اور سماجی اور اخلاقی رفعت کا احساس دلاسکے۔[1]
[امینہ اینی سپیجٹ، ایک انگریز خاتون]
(Ameena Annie spieget, An English Lady)
میں نے اسلام کیوں قبول کیا؟
مجھ سے پوچھا گیا ہے کہ میں نے اسلام کیوں قبول کیا؟میرے اسلام لانے کی چند وجوہات درج ذیل ہیں :
پہلی بات یہ ہے کہ مجھے یقین ہے کہ آج کے عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات پر عمل نہیں کر رہے جبکہ انھوں نے میرے ایمان کے مطابق وہی تعلیم دی ہے جو حضرت موسیٰ، حضرت ابراہیم اور دوسرے انبیاء علیہ السلام نے دی اور یہی تعلیم اسلام کی ہے جس کے معنی ہیں کہ (اپنے آپ )اللہ کی رضامندی کے حوالے کر دینااور رنگ ونسل سے بالاتر عالمگیر اخوتِ انسانی کا قیام عمل میں لانا۔ انسانیت کی نجات کے لیے اللہ تعالیٰ کا زمین پر اتر آنے کا عیسائی نظریہ میری سمجھ میں نہیں آسکا۔ یقینا نجات کا احسن طریقہ یہ ہے کہ انسان محنت، لگن اور عبادت سے اپنے آپ کو اللہ کے حضور پیش کرے۔ مزید برآں عیسائی عقائد کے مطابق اگرحضرت عیسیٰ علیہ السلام (نعوذباللہ) خدا تھے تو پھر وہ ہمیشہ کیوں کہتے رہے : ’’اے اللہ! مرضی میری نہیں تیری چلے گی۔‘‘ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے باربار اپنے پیروکاروں کو بتایا کہ میں تو اللہ کی مرضی کے بغیر کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ آپ تو گتھسیمنی (Gethsemane) [2]کے باغ میں ساری ساری رات اللہ سے ہمت اور حوصلہ عطا کرنے کی دعائیں کرتے رہتے تھے اور بعض اوقات بے چین ہوکر پکار اٹھتے: ’’میر ے مالک تو نے مجھے بے یارومددگار کیوں چھوڑ دیا؟‘‘
علاوہ ازیں کہا جاتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کی دائیں جانب تشریف فرما ہیں ، یہ کیسے ممکن
|