Maktaba Wahhabi

214 - 331
کا موقع ملاتومیں نے اُسی لمحے اپنے آپ کو مسلمان سمجھنا شروع کر دیا۔ پاکستانی جریدے ’’پاکستان کوارٹرلی‘‘("Pakistan Quarterly", Vol.v,No:4,1955) میں ، میں نے اپنے ایک مضمون میں اس واقعہ کے حوالے سے لکھا: ’’ ہم اب نسبتاً ایک بہت چھوٹی مسجد میں گئے جہاں خطبہ ایک ایسے عالمِ دین کو دینا تھا جو روانی سے انگریزی بول سکتے تھے۔[1] وہ پنجاب یونیورسٹی میں ایک اہم منصب پر فائز تھے۔ اُنھوں نے اجتماع سے کہا: ’’میں نے جان بوجھ کر خلاف معمول اپنے خطاب میں جا بجا انگریزی کے زیادہ الفاظ استعمال کیے ہیں تاکہ دور دراز ملک نیدر لینڈ سے آئے ہوئے بھائی میرا خطاب آسانی سے سمجھ سکیں ۔‘‘ خطبہ کے بعد حسبِ معمول دو رکعت نمازِ جمعہ امام صاحب کی اقتدا میں ادا کی گئی۔ اس کے بعد بقیہ نماز خاموشی سے فرداً فرداً ادا کی گئی۔میں جانے لگا تو علامہ صاحب نے مجھے مخاطب کر کے کہا: ’’لوگوں کی خواہش ہے کہ آپ اُن سے خطاب کریں ۔ میں آپ کی گفتگو کا اردو میں ترجمہ کردوں گا۔‘‘ میں مائیک کے سامنے کھڑا ہو گیا اور آہستہ لہجے میں اپنی بات شروع کی۔میں نے کہا کہ میں ایک دور دراز ملک سے آیا ہوں جہاں مسلمان بہت کم ہیں ۔ میں اُن سب کی طرف سے آپ سب حاضرین کو السلام علیکم کہتا ہوں ۔ آپ لوگ خوش قسمت ہیں کہ سات سال قبل آپ نے اپنی اسلامی ریاست قائم کر لی ہے اور چند ہی برسوں میں اس ریاست کو مستحکم بنا لیا ہے۔ ایک مشکل آغاز کے بعد آپ یقینا ایک خوشحال مستقبل کی توقع کر سکتے ہیں ۔ میں نے ان سے یہ وعدہ کیا کہ اپنے وطن واپس جاکر پاکستانی مسلمانوں کی مہمان نوازی اور مہربانیوں سے اپنے اہلِ وطن کو آگاہ کروں گا۔ان الفاظ کا اُردو میں ترجمہ سن کر حیرت انگیز طور پر سیکڑوں لوگوں نے مجھے گھیر لیا۔ بوڑھے، جوان، ہر ایک نے بہت پیار سے مجھ سے مصافحہ کیا اور مجھے اسلام قبول کرنے پر مبارک باد دی۔ میں اُن کا یہ بے ساختہ اظہارِ محبت دیکھ کر حیران رہ گیا۔ خصوصاً اُن کی آنکھوں میں پیار کی وہ چمک تو مجھے کبھی نہیں بھول سکتی۔ اس لمحے مجھے احساس ہوا کہ اسلام کے عظیم رشتۂ اخوت سے میں بھی جڑ گیا
Flag Counter