Maktaba Wahhabi

170 - 331
میں چند صفحے دیکھ کر مجھے فوراً پتہ چل گیا کہ یہی میرا مطلوبِ جستجو تھا۔ میں نے ان صفحات میں ایک ضابطۂ قوانین پڑھا جن پر عمل کرنے سے دنیوی اور دائمی کامیابی، ذہنی سکون اور دانش حاصل ہو سکتی ہے اور جن کے مطالعہ سے یہ بھی پتہ چل سکتا ہے کہ ماضی کی غلطیوں کی تلافی کیسے کی جا سکتی ہے۔ میں نے ایک شاندار فلسفہ پڑھا جو بظاہر سادہ تھا مگر اس میں اتنی گہرائی بھی تھی جو زندگی بھر کے مطالعہ کو کافی تھی۔ یہ ضابطۂ قوانین روح کو اعمالِ صالحہ کی ترغیب دے کر اسے اس طاقتور نظامِ کائنات میں اپنا جائز مقام حاصل کرنے کا راستہ بھی دکھاتا ہے۔اس کے تھوڑے ہی عرصے بعدمیں نے باقاعدہ طو ر پر اسلام قبول کر لیا اور امام خواجہ نذیر احمد نے مجھے مشرف بہ اسلام کر کے اسلامی برادری کا رُکن بنایا۔اس دن سے میں دنیا کے معاملات کودرست زاویۂ نگاہ یعنی اسلامی زاویۂ نگاہ سے دیکھنے لگا ہوں ۔ اب میں دنیا کے مسلط کیے ہوئے جھوٹے عقائد اور مادیت پرستانہ آراء کی گرفت میں نہیں ہوں ، جس میں وہ ہزاروں لوگ گرفتار ہیں جو سچ اور جھوٹ، غلط اور درست میں تمیز نہیں کرسکتے۔ آخری بات یہ ہے کہ اسلام خود غرضی کو گناہِ کبیرہ قرار دے کر اس سے منع فرماتا ہے اور یہ تعلیم دیتا ہے کہ اگر ایک بھائی تکلیف میں مبتلا ہو تو دوسرا اس سے لا تعلق ہو کر خوش نہیں رہ سکتا۔ ایک معروف مشرقی مفکر نے ایک دفعہ کہا تھا: ’’ہمارا جذبۂ خدمتِ خلق زندگی میں ہمارے لیے روشنی کا چرا غ ہے، خواہ ہمارا پیشہ کوئی بھی ہو۔ ‘‘ اپنی روز مرّہ ضروریات پوری کرنے کے بعد اور اپنے مادی مستقبل کو محفوظ بنا لینے کے بعد ہم سب مسلمانوں کو چاہیے کہ خدمت خلق کا کوئی نہ کوئی شعبہ اپنالیں ۔ خدمتِ خلق کا کام کسی بھائی کا مادی بوجھ کم کرکے یا اس کی روحانی مدد کر کے کیا جاسکتا ہے، لیکن پہلے ہمیں اس کا تعین کر لینا چاہیے کیونکہ یہی ہمیں لازوال مسرت سے ہم کنار کرسکتا ہے اور دنیا و آخرت میں ہمارے وجود کا یہی جواز ہو سکتا ہے۔[1] [فضل کریم سانڈرز] (Fazl Karim Saunders)
Flag Counter