Maktaba Wahhabi

169 - 331
بنیادی اصولوں اور بائبل کی تعلیمات وغیرہ سے آشنا کیا۔ مگر اس تمام تر تربیت سے مجھے جو کچھ حاصل ہوا وہ فقط ایک عجیب قسم کی جذباتیت اور مذہبی تعلیم کے مختلف امتحانوں میں کامیابی کے سوا اور کچھ نہ تھا۔مجھے وہ روحانی ضبط حاصل نہ ہو سکاجو مجھے زندگی کی مشکلات کے لیے تیار کر سکتا۔ 1918-19ء کے دوران میں ، میں نے مصر میں رائل ائیر فورس (Royal Air Force) میں کچھ دیر کام کیا۔ وہاں ایک انگریز دوست کے ہمراہ مجھے ایک رات نصف شب کے قریب ولادتِ نبوی کے سلسلے کی ایک تقریب میں شمولیت کا موقع ملا۔ مجھے یاد ہے کہ اس وقت ہم اس تقریب سے بہت متاثر ہوئے۔ عربی میں نعت خوانی، ہوا میں لہراتے ہوئے اسلا م کے پرچم، عقیدت مندوں کے خلوص اور ان کی مشفقانہ مہمان نوازی نے ہمیں بہت متاثر کیا۔مگر میں یہ اعتراف کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس وقت ہم محض تماشائی تھے۔ انگلینڈ واپسی پر میری جستجو اور تجسس کا آغاز ہوا۔ دانشِ حقیقی کی تلاش پر مجھے پرینٹس ملفورڈ (Prentice Mulford) کی ایک چھوٹی سی کتاب ’’Thoughts are Things‘‘ نے آمادہ کیا۔ اس چھوٹی سی کتاب نے سادہ لفظوں میں مجھے قوتِ فکر سے آشنا کیا۔ اس سے مجھے معلوم ہوا کہ کس طرح بُرے خیالات ایک برا ماحول مرتب کرتے ہیں جبکہ اچھے خیالات اچھا ماحول قائم کرتے ہیں اور درست سائنسی سوچ خواہشات کی تسکین کا سامان فراہم کرتی ہے۔ یہ تلاش تقریباًچار پانچ سال تک جاری رہی۔ اس عرصے میں میں نے وسیع مطالعہ کیا، مختلف تقاریر سنیں اور مباحثوں میں حصہ لیا۔ مذہبی فلسفہ (Theosophy)، بدھ مت، یوگا (Yoga)کا فلسفہ، روحانیت، تصوف ،کیتھولک مذہب، فکرِ جدیداور پیلمن ازم (Pelmanism) وغیرہ پر خوب پڑھا۔ غرض ہر مذہب اور ہر فلسفے کا مطالعہ کر ڈالا مگر ہر فلسفے میں چند ایک ابدی حقائق کے سوا اور کچھ نہ ملا، لہٰذا یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ میں خالی ہاتھ ہی لوٹ آیا۔ 1924ء تک میں اسلام کی سادہ مگر انتہائی معقول اور اطمینان بخش تعلیمات سے متعارف نہیں ہوا تھا۔ایک دن مڈلینڈ (Midland) کی ایک پبلک لائبریری میں جانے کا اتفاق ہوا تو رسالہ ’’اسلامک ریویو‘‘ کا ایک تازہ شمارہ دیکھا۔ ’’اسلام کیا ہے؟‘‘ کے عنوان سے اس رسالے
Flag Counter