Maktaba Wahhabi

264 - 360
کرتے ہوئے کہتے ہیں: ان لوگوں پر تعجب ہے، کہ وہ بعض کاموں میں ترتیب ختم ہونے پر گناہ اور فدیہ دونوں کی نفی مراد لیتے ہیں۔ اگر ترتیب واجب ہوتی اور اس کے ختم ہونے سے دم لازم ہوتا، تو اس کے ختم ہونے کی ہر صورت میں حکم یکساں ہونا چاہیے تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عام فرمان (لاَ حَرَجَ) سے بعض صورتوں میں صرف گناہ کی نفی اور بعض میں گناہ اور فدیہ دونوں کی نفی کیونکر درست ہوسکتی ہے؟[1] ہ: صحیح مسلم میں حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے حوالے سے روایت میں ہے، کہ ایک سائل نے کہا: ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے خبر نہ تھی، کہ رمی قربانی سے پہلے ہے… ایک دوسرے شخص نے عرض کیا: مجھے شعور نہ تھا، کہ قربانی سرمنڈانے سے پہلے ہے… الحدیث[2] اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے بعض علمائے امت نے تقدیم و تاخیر کی بنا پر دم لازم نہ آنے کو بھول اور لاعلمی کی بنا پر ایسے کرنے والے کے ساتھ مخصوص کیا ہے۔[3] علامہ ابن بطال اس بارے میں لکھتے ہیں: اگر کسی گمان کرنے والے نے یہ گمان کیا، کہ سائل کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہنا [میں نے لاعلمی میں رمی سے پہلے قربانی کی ہے] اس بات پر دلالت کرتا ہے، کہ عمداً ایسے کرنا جائز نہیں اور ایسی صورت میں ممکن ہو، تو (ٹھیک ترتیب سے دوبارہ) عمل کرے، وگرنہ فدیہ ادا کرے۔ یہ گمان درست نہیں، کیونکہ مناسکِ حج میں سے عمداً کرنے والے پر لازم ہونے
Flag Counter