Maktaba Wahhabi

379 - 360
پر عمل کرو اور میرا قول چھوڑ دو۔‘‘ امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’مَنْ رَدَّ حَدِیْثَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم فَہُوَ عَلٰی شَفَا ہَلَکَۃٍ۔‘‘[1] ’’جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو ردّ کیا، وہ ہلاکت کے کنارے پر ہے۔‘‘ قابل صد احترام حضرات ائمہ کے ان واضح ارشادات کے بعد ان کی طرف منسوب اقوال کی وجہ سے سنتِ مطہرہ سے ثابت شدہ کسی آسانی کو ردّ کرنا کیونکر درست ہوسکتا ہے؟ ۳: سنت سے ثابت شدہ آسانیوں کی دو قسمیں: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ آسانیوں کو دو قسموں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پہلی قسم ایسے آسانی والے اعمال یا ان کے کرنے کے ایسے آسان طریقے ہیں، کہ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اختیار فرمایا۔ اس قسم کی آسانیوں میں سے میقات سے پہلے احرام پہننا، احرام سے پہلے سر کے بال جمانا، حالتِ احرام میں غسل کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ حج و عمرہ کرنے والے ان سے بلا تردّد فائدہ اٹھائیں۔ ان سے بہرہ ور ہونے میں نہ گناہ ہے، نہ فدیہ اور نہ ہی اجر و ثواب میں کمی، کیونکہ امام المتقین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود انہیں سر انجام دیا۔ دوسری قسم میں ایسے آسانی والے اعمال یا آسان طریقے سے کیے ہوئے اعمال ہیں، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اجازت تو دی، لیکن خود ان کی بجائے دوسرے اعمال کیے یا ان سے قدرے کم آسانی والے طریقے اختیار فرمائے؛ جیسے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود تو عرفات میں زوال آفتاب سے لے کر غروبِ آفتاب تک
Flag Counter