۲۴۔ محرم کے لیے آبی شکار اور سمندر کے کھانے کا حلال ہونا:
احرام کے تقدس کے تقاضوں میں سے ایک یہ ہے ، کہ محرم شکار نہ کرے، لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ آسانی فرما دی ہے ، کہ آبی شکار اور سمندر کے کھانے کی چیزیں، جو بے شکار ہاتھ آجائیں، محرم کے لیے حلال کر دیں۔[1] ارشادِ ربانی ہے:
{اُحِلَّ لَکُمْ صَیْدُ الْبَحْرِ وَ طَعَامُہٗ مَتَاعًا لَّکُمْ وَ لِلسَّیَّارَۃِ}[2]
[تمہارے لیے سمندر کا شکار اور اس کا کھانا حلال کر دیا گیا ، تاکہ تم اور قافلے فائدہ اُٹھائیں۔]
آیت کریمہ کے حوالے سے چار باتیں:
۱: (صَیْدُ الْبَحْرِ) سے مراد صرف سمندر کا شکار نہیں، بلکہ مقصود آبی شکار ہے، خواہ وہ سمندر میں ہو یا ندی نالے وغیرہ میں۔ قاضی ابو سعود لکھتے ہیں:
’’ (صَیْدُ الْبَحْرِ ) أيْ مَا یُصَادُ فِي الْمِیَاہِ کُلِّہَا بََحْرًا کَانَ أَوْ نَہْرًا أَوْ غَدِیْرًا۔‘‘ [3]
’’یعنی جس کا شکار تمام پانیوں سے کیا جائے، خواہ وہ سمندر ہو یا نہر یا تالاب۔‘‘
علامہ شوکانی تحریر کرتے ہیں:
’’وَالْمُرَادُ بِالْبَحْرِ ہُنَا کُلُّ مَائٍ یُوْجَدُ فِیْہِ صَیْدٌ بَحْرِيٌّ ، وَإِنْ کَانَ نَہْرًا أَوْ غَدِیْرًا۔‘‘ [4]
|