Maktaba Wahhabi

376 - 360
خلاصہ کلام یہ ہے، کہ کسی بھی شخص کو اس بات کی اجازت نہیں، کہ وہ اپنے خیال کے مطابق زیادہ متقی بننے اور اجر و ثواب حاصل کرنے کی غرض سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آسانی پر مشتمل ثابت شدہ حکم کے بارے میں تردد کا شکار ہو۔ ۲: ثابت شدہ آسانی سے کسی امتی کے قول کی وجہ سے اعراض نہ کرنا: کسی مسلمان کے لیے یہ زیبا نہیں، کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ آسانی سے اس وجہ سے روگردانی کرے، کہ کسی عالم، فقیہ، محدث یا امام کی رائے اس کے برعکس ہے۔ یہ سارے حضرات اپنی شان و عظمت کے باوجود امتی ہیں اور امتی کی وجہ سے نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو چھوڑا نہیں جاسکتا۔ امام شافعی نے کتنی عظیم الشان بات فرمائی ہے: ’’وَإِذَا ثَبَتَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم الشَيْئُ فَہُوَ اللَّازِمُ لِجَمِیْعِ مَنْ عَرَفَہُ، لَا یُقَوِّیْہِ وَلَا یُوْہِنُہُ وَغَیْرُہُ، بَلِ الْفَرْضُ عَلَی النَّاسِ اتِّبَاعُہُ، وَلَمْ یَجْعَلِ اللّٰہُ لِأَحَدٍ مَعَہُ أَمْرًا یُخَالِفُ أَمْرَہُ۔‘‘[1] ’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے چیز ثابت ہوجائے، تو اسے جاننے والے ہر شخص پر وہ ہی لازم ہے نہ تو کسی کی تائید اسے تقویت دیتی ہے اور نہ کسی مخالفت اسے کمزور کرتی ہے، بلکہ سب لوگوں پر اس کی اتباع فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کسی کے لیے یہ اختیار نہیں رکھا، کہ اس کی بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مقابلے میں آسکے۔‘‘ امام نووی نے اس بارے میں کتنی خوبصورت بات فرمائی ہے: وَإِذَا تَثَبَتِ السُّنَّۃُ لَا تُتْرَکُ لِتَرْکِ بَعْضِ النَّاسِ أَوْ أَکْثَرِہِمْ أَوْ
Flag Counter