Maktaba Wahhabi

306 - 360
۶: ایامِ حج میں تین روزے نہ رکھ سکنے پر وطن آنے پر انہیں رکھنا: ۷: روزوں میں تسلسل کا ضروری نہ ہونا: ایک ہی سفر میں حج اور عمرہ کرنے والے پر قربانی ہے، لیکن اس قربانی کے حوالے سے قرآن و سنت میں متعدد آسانیاں ہیں، جن میں سے پانچ مذکورہ بالا ہیں۔ توفیقِ الٰہی سے ان کے متعلق ذیل میں دو دلیلیں پیش کی جارہی ہیں: ا: ارشاد باری تعالیٰ: {فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَۃِ اِلَی الْحَجِّ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْہَدْیِ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَۃِ اَیَّامٍ فِی الْحَجِّ وَ سَبْعَۃٍ اِذَا رَجَعْتُمْ تِلْکَ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ}[1] [پس جو شخص عمرہ و حج ملا کر تمتع [2] کرے، تو اسے جو قربانی میسر ہو،کر ڈالے اور جسے قربانی میسر نہ ہو، تو اسے چاہیے کہ تین روزے حج کے دنوں میں اور سات روزے جب تم واپس آؤ، تو رکھے۔ یہ پورے دس ہیں۔] ب: امام بخاری اور امام مسلم نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر مکہ تشریف لانے کے بعد لوگوں سے فرمایا: ’’مَنْ کَانَ مِنْکُمْ أَھْدَی فَإِنَّہُ لَا یَحِلُّ لِشَيْئٍ حَرُمَ مِنْہُ، حَتَّی یَقْضِيَ حَجَّہُ۔ وَمَنْ لَمْ یَکُنْ مِنْکُمْ أَہْدَی فَلْیَطُفْ بِالْبَیْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ وَلْیُقَصِّرْ وَلْیَحْلِلْ، ثُمَّ لِیُہِلَّ بِالْحَجِّ۔ فَمَنْ لَمْ یَجِدْ ہَدْیًا فَلْیَصُمْ ثَلَا ثَۃَ أَیَّامٍ فِيْ الْحَجِّ وَسَبْعَۃٍ إِذَا
Flag Counter