Maktaba Wahhabi

135 - 360
[محرم کے لیے پچھنا لگوانے کے جواز کے متعلق باب] علامہ قرطبی دونوں حدیثوں کی شرح میں رقم طراز ہیں: ضرورت کی بنا پر محرم کے لیے سریا جسم کے کسی حصے میں پچھنا لگوانے کے جواز میں اختلاف نہیں۔ جمہور علماء نے بالوں کے مونڈے بغیر بلاضرورت بھی جسم کے کسی حصے میں پچھنا لگوانے کی اجازت دی ہے ، البتہ امام مالک ایسی صورت میں منع کرتے ہیں۔ جمہور علماء کے نزدیک سر اور اسی طرح جسم کے کسی حصے میں پچھنا لگوانے پر بالوں کے مونڈنے کی بنا پر دم لازم آئے گا۔ (امام) داؤد ضرورت کی بنا پر پچھنا لگوانے کی صورت میں جسم کے کسی حصے کے بالوں کے مونڈنے کی وجہ سے دم لازم نہیں کرتے۔ (امام) حسن (بصری) کے نزدیک پچھنا لگوانے پر دم دینا ہوگا۔[1]،[2] حافظ ابن حجر تحریر کرتے ہیں، کہ اس حدیث سے محرم کے لیے پچھنا لگوانے ، زخم اور پھوڑے کو چیرنے ، رگ کاٹنے، داڑھ نکالنے وغیرہ علاج کی مختلف صورتوں کے جواز کے لیے دلیل لی گئی ہے، جب کہ محرم خوشبو کے استعمال اور بالوں کے کاٹنے کے ممنوعہ کاموں کا ارتکاب نہ کرے۔ علاوہ ازیں اس قسم کے علاج کی صورت میں اس پر کوئی فدیہ لازم نہیں آئے گا۔ [3] مولانا داؤد راز دہلوی رقم طراز ہیں: ’’ مروجہ اعمالِ جراحی کو بھی بوقت ضرورت شدید اسی پر قیاس کیا جا سکتا ہے۔‘‘ [4]
Flag Counter