سب اس بات پر متفق ہیں کہ بوڑھی عورتوں کیلئے اپنے چہروںسے پردہ ہٹائے رکھنا مباح ہے،لیکن اگر پردہ ہٹانے سے بچ جائیں توبہترہے۔ اس کے مقابلے میں اگرہم یوں کہیں کہ جوان عورتوں کیلئے بھی چہروں سے پردہ ہٹائے رکھنا مباح ہے ،البتہ اگر چہروں کوڈھانپ لیں تو مستحب اور مستحسن ہے،توپھر بوڑھی اور جوان میں کیافرق رہے گا؟اور آیتِ کریمہ میں بوڑھی عورتوں کی تخصیص کاکیا معنی ہوگا؟یہ تو ایک عبث بات ہوگی جس سے قرآنِ حکیم بری اورپاک ہے۔تو گویا یہ نصِ قرآنی جوان عورت کیلئے،چہرے کوڈھانپنا واجب قرار دے رہی ہے ۔ (۵) چہروں کوڈھانپے رکھنے کاعمل صحابیات کے مابین معروف تھا،اورقرآن پاک اُنہی کی زبان میں نازل ہوا تھا،ہردوراورعلاقے میں مؤمن عورتوں کاعمل چہروںاور ہاتھوں کوڈھانپنے پرمسلسل قائم رہا،حتی کہ چودھویںصدی ہجری نمودار ہوئی،جس میں منحوس استعمار نے اسلامی خطوں پر ڈیرے ڈال دیئے(اور کچھ مسلمان اسی استعمار کی بولی بولنے لگے)حالانکہ مسلمان عورتوں کا ہردورمیں تسلسل کے ساتھ، اپنے چہروں اور ہاتھوں کووجوباً ڈھانپنے کاعمل،استحباب کے قول پر ضربِ کاری کا کام کرتاہے۔ |
Book Name | چہرے اور ہاتھوں کا پردہ |
Writer | فضیلۃ الشیخ علی بن عبداللہ النمی |
Publisher | مکتبۃ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 222 |
Introduction | زیر نظر کتاب علی بن عبداللہ النمی کی تالیف ہے اور اس کا اردو ترجمہ فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی صاحب حفظہ اللہ نے کیا ہے، اس کتاب میں خواتین کے پردے کے حوالے سے سیر حاصل بحث کی گئی ہے، اس میں ایسے تمام شبہات کا تعاقب کیا گیا ہے جن پر ان لوگوں کا اعتماد تھا جو مسلم خاتون کو بے پردگی کی دعوت دینے میں کوشاں و حریص ہیں،کتاب بنیادی طور پر دو ابواب میں منقسم ہے ، ایک باب میں ان شبہات کا جائزہ لیا گیا ہے جو چہرے کے پردے سے متعلق ہیں اور دوسرا باب ہاتھوں کے ڈھانپنے کے وجوب سے متعلق شہبات کے ازالے پر مشتمل ہے۔ |