(۲)پھر یہ احتمال بھی ہوسکتا ہے کہ اسماء کے ہاتھوں کا ظاہرہونا بلاقصد وارادہ ہو، جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ابوبکرصدیقرضی اللہ عنہ سے مضرت رساں چیزیں دورکررہی تھیں، اس کی تائید مجالد کی روایت سے بھی ہوتی ہے،چنانچہ وہ قیس سے بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے والد کے ساتھ ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ،جبکہ وہ بیمار تھے کی خدمت میں حاضر ہوا، اسماء بنت عمیس انہیں اپنے ہاتھوں سے پنکھا جھل رہی تھیں،مجھے ان کی کلائیوں میں گدنے کے نشان دکھائی دے رہے تھے۔[1] یہ بات معلوم ہے کہ کلائیوں کا ظاہرکرنا ناجائزہے(لہذا اسے بلاقصد وارادہ ظاہر ہونے پر محمول کیاجاسکتاہے) تیسری فرع:ایسی روایت سے استدلال جس میں عورت بوڑھی ہونے کی وجہ سے معذورہے۔ ساتواں شبہ کچھ لوگوں نے عروہ بن عبداللہ بن قشیر سے مروی ایک اثر کا سہارالیا ہے،وہ فاطمہ بنت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوئے، آگے فرماتے ہیں :میں نے ان کے ہاتھوں میں دوبھاری بھاری کنگن دیکھے،ہرہاتھ میں دودوتھے،اس کے علاوہ میں نے ان کے ہاتھ میں انگوٹھی بھی دیکھی …الخ (ابن سعد،ابن عساکر) |
Book Name | چہرے اور ہاتھوں کا پردہ |
Writer | فضیلۃ الشیخ علی بن عبداللہ النمی |
Publisher | مکتبۃ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 222 |
Introduction | زیر نظر کتاب علی بن عبداللہ النمی کی تالیف ہے اور اس کا اردو ترجمہ فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی صاحب حفظہ اللہ نے کیا ہے، اس کتاب میں خواتین کے پردے کے حوالے سے سیر حاصل بحث کی گئی ہے، اس میں ایسے تمام شبہات کا تعاقب کیا گیا ہے جن پر ان لوگوں کا اعتماد تھا جو مسلم خاتون کو بے پردگی کی دعوت دینے میں کوشاں و حریص ہیں،کتاب بنیادی طور پر دو ابواب میں منقسم ہے ، ایک باب میں ان شبہات کا جائزہ لیا گیا ہے جو چہرے کے پردے سے متعلق ہیں اور دوسرا باب ہاتھوں کے ڈھانپنے کے وجوب سے متعلق شہبات کے ازالے پر مشتمل ہے۔ |