Maktaba Wahhabi

80 - 222
یعنی:تیرے دوپٹہ کا نور اور اس کے نیچے تیرے چہرے کانور،تعجب ہے تیرا چہرہ آگ کا انگارہ کیوں نہ بن گیا؟ ثابت ہوا کہ لغوی اعتبار سے ’’الخمار ‘‘سے مراد ہر وہ چیز ہے جس سے کسی چیز کو ڈھانپنا یا چھپاناحاصل ہو،چنانچہ جلباب یعنی اوڑھنی کو بھی خمار کہاجاسکتا ہے اور عمامہ یعنی پگڑی کوبھی خمار کہا جاسکتا ہے،عورت جس کپڑے سے اپنے سراورگردن کوڈھانپے گی، وہ خمار کہلائے گا ۔ ایک بوڑھی عورت جسے قرآن نے چہرہ کھولنے کی رخصت دی ہے،اس کاخمار وہ کپڑا ہے جو اس کے بالوں اورگردن کوڈھانپ لے۔ ایک جوان عورت جب تنہانماز اداکرے گی،تو اپنا چہرہ کھلا رکھے گی،لیکن بالوں اور گردن کو ڈھانپے رکھے گی،جس سے اسے خمار کی قدرِ واجب حاصل ہوجائے گی۔ لیکن تمام عورتوں کیلئے اجنبی مردوںکی موجودگی میں،شریعت اور عرفِ عام میں خمار سے مراد وہ چادر ہوگی جواس کے سر،چہرے،گردن اور سینے کو ڈھانپ لے۔ اوریہ متفق علیہ قاعدہ موجود ہے کہ ہر مسئلہ میں شرعی حقیقت،لغوی حقیقت پر مقدم ہوگی، جو اس کے خلاف کہے گا وہ انتہائی کج فہمی کاشکارہے۔ ’’الجلباب‘‘ کی تفسیر اور صفت ام سلمہ رضی اللہ عنہاسے بسندِ صحیح ثابت ہے،فرماتی ہیں:جب آیتِ کریمہ [ يُدْنِيْنَ عَلَيْہِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِہِنَّ]نازل ہوئی تو انصارعورتیں اپنے گھروں سے اس طرح باہر نکلیں کہ سیاہ چادریں اوڑھنے کی وجہ سے ایسا لگتا تھا جیسے ان کے سروں پر کوے بیٹھے ہوئے ہیں۔[1] لغتِ عرب میں (الرأس) یعنی سر، چہرے کوبھی شامل ہے، ایسی کوئی دلیل کہاں
Flag Counter