یعنی:مجھے کہتے ہیں دیکھونہیں،یہ کتنی بڑی آزمائش ہے ،ہروہ شخص جس کے پاس دوآنکھیں ہیں،اس کا دیکھنا توضروری ہے۔ کچھ لوگوںکاکہنا ہے :کھلے چہرے والی عورت کو دیکھنا جائز ہے،یہ ایک اوربہت بڑی اورخطرناک آفت ہے ۔ بقول شاعر: ألقاہ فی الیم مکتوفاوقال لہ إیاک إیاک أن تبتل بالماء یعنی:اس نے،اس کے ہاتھوں کوکاٹ کر اسے دریامیں پھینک دیااور کہا خبردار اپنے آپ کو پانی میں بھیگنے سے بچانا؟؟ چھبیسواں شبہ کچھ لوگوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ایک روایت سے استدلال کیا ہے، وہ فرماتے ہیں: میں عیدوالے دن،نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ سے قبل،بلااذان واقامت، عید کی نماز پڑھائی ،پھر بلال رضی اللہ عنہ کے ساتھ ٹیک لگاکر کھڑے ہوگئے (اورخطبہ ارشادفرمایا)اس موقعہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو اپنی اطاعت کی ترغیب دلائی اور بہت کچھ وعظ ونصیحت فرمائی،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چل پڑے،حتی کہ خواتین کے پاس آگئے،انہیں بھی وعظ ونصیحت فرمائی،چنانچہ فرمایا: صدقہ دیاکرو؛کیونکہ اکثر عورتیں جہنم کا ایندھن ہیں، عورتوں کے بیچ میں سے ایک عورت جس کے رخسار سیاہ تھے، کھڑی ہوئی اور کہنے لگی :یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کیوں؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیونکہ تم بہت زیادہ شکوے کرتی ہواور اپنے شوہروں کی ناشکری کرتی ہو،چنانچہ عورتوں نے اپنے زیورات بطورِ صدقہ دینے شروع |
Book Name | چہرے اور ہاتھوں کا پردہ |
Writer | فضیلۃ الشیخ علی بن عبداللہ النمی |
Publisher | مکتبۃ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 222 |
Introduction | زیر نظر کتاب علی بن عبداللہ النمی کی تالیف ہے اور اس کا اردو ترجمہ فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی صاحب حفظہ اللہ نے کیا ہے، اس کتاب میں خواتین کے پردے کے حوالے سے سیر حاصل بحث کی گئی ہے، اس میں ایسے تمام شبہات کا تعاقب کیا گیا ہے جن پر ان لوگوں کا اعتماد تھا جو مسلم خاتون کو بے پردگی کی دعوت دینے میں کوشاں و حریص ہیں،کتاب بنیادی طور پر دو ابواب میں منقسم ہے ، ایک باب میں ان شبہات کا جائزہ لیا گیا ہے جو چہرے کے پردے سے متعلق ہیں اور دوسرا باب ہاتھوں کے ڈھانپنے کے وجوب سے متعلق شہبات کے ازالے پر مشتمل ہے۔ |