مطابق ماں کی طرف سے ان کی دس بہنیں تھیں ،اور ماں اورباپ دونوںکی طرف سے چھ بہنیں تھیں(اس تعداد سے ہمارا ذکر کردہ احتمال قوی ثابت ہورہا ہے؛کیونکہ اسماء کی ان کثیر التعداد بہنوںکا واضح ذکر نہیں ملتا) پھربتائیے کہ کیا اس قسم کی حکایات،کتاب وسنت کے نصوص کا مقابلہ کرسکتی ہیں، یہ روش توصوفیوں نے اپنائی تھی،جو نتیجۃً جادئہ توحید سے انحراف کا شکارہوگئے۔اللہ تعالیٰ سے عافیت کا سوال ہے۔ انیسواں شبہ کچھ لوگوں نے ایک مرفوع حدیث ،بطورِ دلیل ذکر کی ہے،جس کے الفاظ یہ ہیں: آدمی کا احرام اس کے سر میں ہے اور عورت کا چہرے میں۔ان کاکہنا ہے کہ یہ حدیث اس بات پر دلالت کررہی ہے کہ حالتِ احرام میں عورت کا چہرہ لازمی طور پہ کھلا ہو،اس وجوب کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو حالتِ احرام میں نقاب کرنے اور دستانے پہننے سے منع فرمایاہے۔ جواب:مذکورہ مرفوع حدیث بے اصل ہے ۔ جہاں تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عورتوں کیلئے نقاب اور دستانے پہننے کی ممانعت کا تعلق ہے تو یہ نہی عورتوں کیلئے ،حالتِ احرام میں مخصوص ہے، لیکن جب محرم عورتوںکا اجنبی مردوںسے سامنا ہوگاتوچادرکے ساتھ چہرے کاڈھانپنا اور آستینوں کے ساتھ ہاتھوں کا ڈھانپنا ضروری ہوگا،اس کیلئے بہت سے دلائل بیان ہوچکے۔ اس مسئلہ کو مزید سمجھنے کیلئے اس حقیقت پر غورکیجئے کہ مردوں کیلئے حالتِ احرام میں،شلوار کا استعمال ممنوع قراردیاگیا ہے،توکیاوہ ازارکے ساتھ اپنی شرم گاہیں نہیں ڈھانپیں گے؟ |
Book Name | چہرے اور ہاتھوں کا پردہ |
Writer | فضیلۃ الشیخ علی بن عبداللہ النمی |
Publisher | مکتبۃ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 222 |
Introduction | زیر نظر کتاب علی بن عبداللہ النمی کی تالیف ہے اور اس کا اردو ترجمہ فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی صاحب حفظہ اللہ نے کیا ہے، اس کتاب میں خواتین کے پردے کے حوالے سے سیر حاصل بحث کی گئی ہے، اس میں ایسے تمام شبہات کا تعاقب کیا گیا ہے جن پر ان لوگوں کا اعتماد تھا جو مسلم خاتون کو بے پردگی کی دعوت دینے میں کوشاں و حریص ہیں،کتاب بنیادی طور پر دو ابواب میں منقسم ہے ، ایک باب میں ان شبہات کا جائزہ لیا گیا ہے جو چہرے کے پردے سے متعلق ہیں اور دوسرا باب ہاتھوں کے ڈھانپنے کے وجوب سے متعلق شہبات کے ازالے پر مشتمل ہے۔ |