وجوب کے دلائل اس اصل کو توڑ رہے ہیں،اورجولوگ چہرہ کی بے پردگی کے جواز کے قائل ہیں وہ اس بات سے عاجز ہیں کہ ایک ایسی دلیل پیش کرسکیں جو حجاب کی فرضیت کے حکم سے متاخرہواورمعتبر احتمال سے خالی ہو،جب تک دنیا قائم ہے یہ لوگ عاجز ہی رہیں گے۔(واللہ اعلم) چھیا لیسواں شبہ (یہ لوگ کہتے ہیں)نماز میں پردہ کے وجوب پر اجماع قائم ہے،لیکن عورت کیلئے چہرہ اورہاتھوں کا کھلا رکھنا اوربقیہ بدن کوڈھانپے رکھنامشروع ہے ،یہ اس بات کی دلیل ہے کہ عورت کا چہرہ اور ہاتھ (عورۃ) یعنی پردہ نہیں ہیں۔ جواب:یہ کیسا قیاس ہے جو صحتِ قیاس کی شرائط سے خالی ہے،بلکہ یہ قیاس مع الفارق ہے،چنانچہ جس چیز کو نماز میں کھلا رکھنا مشروع ہے ضروری نہیں کہ نماز کے علاوہ بھی اسے کھلا رکھنا جائزہو۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: بعض اوقات نمازی اپنی نماز میں جسم کے جن حصوں کو ڈھانپتا ہے،نماز سے باہر انہیں کھولنا جائز ہوتاہے،اورکبھی کبھی نماز میں ان حصوں کو کھلا رکھتا ہے جنہیں عام طورپہ مردوں سے چھپائے رکھتاہے…۔ (مزید فرماتے ہیں)لہذا نماز میں شرمگاہ(یعنی جسے ڈھانپنا ضروری ہے) کا معاملہ عمومی طور پر (عورۃ النظر)سے مرتبط اور منسلک نہیں ہے(یعنی جسم کے وہ حصے جو عام حالات میں اجنبیوں کی نگاہوں سے چھپائے جانے چاہئیں )[1] سینتا لیسواں شبہ (یہ لوگ کہتے ہیں)چہرے اورہاتھوں کو وجوباً ڈھانپے رکھنے کا قول ،عند |
Book Name | چہرے اور ہاتھوں کا پردہ |
Writer | فضیلۃ الشیخ علی بن عبداللہ النمی |
Publisher | مکتبۃ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 222 |
Introduction | زیر نظر کتاب علی بن عبداللہ النمی کی تالیف ہے اور اس کا اردو ترجمہ فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی صاحب حفظہ اللہ نے کیا ہے، اس کتاب میں خواتین کے پردے کے حوالے سے سیر حاصل بحث کی گئی ہے، اس میں ایسے تمام شبہات کا تعاقب کیا گیا ہے جن پر ان لوگوں کا اعتماد تھا جو مسلم خاتون کو بے پردگی کی دعوت دینے میں کوشاں و حریص ہیں،کتاب بنیادی طور پر دو ابواب میں منقسم ہے ، ایک باب میں ان شبہات کا جائزہ لیا گیا ہے جو چہرے کے پردے سے متعلق ہیں اور دوسرا باب ہاتھوں کے ڈھانپنے کے وجوب سے متعلق شہبات کے ازالے پر مشتمل ہے۔ |