دوسری فصل (بے پردگی کے قائل حضرات اپنے مؤقف کیلئے جن شبہات کا سہارا لیتے ہیں، ان میں سے ہرشبہ کے تعلق سے کچھ جواب طلب امور کی وضاحت ضروری ہے، جنہیں اس فصل میں بیان کیاجاتاہے) چھٹا شبہ جولوگ عورت کیلئے چہرہ کھلارکھنے کی اباحت کے قائل ہیں،وہ کچھ نقلی دلائل کے ظواہراورچندتاریخی واقعات سے استدلال کرتے ہیں،ان کاکہنا ہے کہ اگر ہمارا مؤقف قوی نہ ہوتاتوہمیں یہ دلائل نہ ملتے۔ جواب:امام شاطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جتنے بھی گمراہ فرقے ہیں اورجن لوگوں نے بھی احکامِ شرعیہ میں اختلاف کیا ہے،انہیں اپنے مذہب کے استدلال کیلئے چند دلائل کے ظواہر میسر ہوہی جاتے ہیں (توکیایہ ان کے مذہب کے حق ہونے کاثبوت ہے؟)تحقیق کرنے والے ہر منصف شخص پرفرض ہے کہ وہ ہرمذہب کی پیش کردہ دلیل کے تعلق سے سلف صالحین کے فہم کومدِ نظررکھے اوریہ دیکھے کہ ان کا عمل کیاتھا،سلف صالحین کافہم اورعمل ہمیشہ انتہائی درست قرار پاتاہے ۔[1] جولوگ عورت کے چہرے کو بے پردہ رکھنے کے جواز کے قائل ہیں،ان کے تمام تردلائل محض اوہام وظنون اور تصورات پر مبنی ہیں ،اگرچہ وہ ان اوہام کو دلائل سمجھتے رہیں اور اپنے عمل کو تحقیق کانام دیتے رہیں۔ |
Book Name | چہرے اور ہاتھوں کا پردہ |
Writer | فضیلۃ الشیخ علی بن عبداللہ النمی |
Publisher | مکتبۃ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 222 |
Introduction | زیر نظر کتاب علی بن عبداللہ النمی کی تالیف ہے اور اس کا اردو ترجمہ فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی صاحب حفظہ اللہ نے کیا ہے، اس کتاب میں خواتین کے پردے کے حوالے سے سیر حاصل بحث کی گئی ہے، اس میں ایسے تمام شبہات کا تعاقب کیا گیا ہے جن پر ان لوگوں کا اعتماد تھا جو مسلم خاتون کو بے پردگی کی دعوت دینے میں کوشاں و حریص ہیں،کتاب بنیادی طور پر دو ابواب میں منقسم ہے ، ایک باب میں ان شبہات کا جائزہ لیا گیا ہے جو چہرے کے پردے سے متعلق ہیں اور دوسرا باب ہاتھوں کے ڈھانپنے کے وجوب سے متعلق شہبات کے ازالے پر مشتمل ہے۔ |