جواب:پہلی حدیث کی سند کے بارہ میں ابن الترکمانی فرماتے ہیں: غبطہ اور ام الحسن،دونوں کے حالات میں نہیں جانتا،اس کی دادی بھی مجہول ہے ۔امام مزی اپنے اطراف میں فرماتے ہیں: اسے بشرالجھضمی نے غبطہ سے اور اس نے اپنی پھوپھی سے اور اس نے اپنی دادی سے روایت کیا ہے۔ دوسری حدیث کی سند میں مطیع بن میمون نامی راوی ہے،جو کہ ضعیف ہے۔ (الکاشف للذھبی) نیز اس سند میں صفیہ بنت عصمہ بھی مجہول ہے۔[1] امام مناوی فرماتے ہیں: امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے(العلل)میں فرمایا ہے: یہ منکر حدیث ہے،ابن عدی فرماتے ہیں :یہ حدیث غیر محفوظ ہے،جبکہ( المعارضہ) میں فرماتے ہیں: حناء (مہندی) والی تمام حدیثیں یا تو ضعیف ہیں یامجہول۔[2] دوسرا شبہ کچھ لوگوں نے اس روایت کا سہارالیا ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہانے اپنا کوئی بیٹابلال یا انس کو پکڑایا،انس فرماتے ہیں :مجھے ان کاہاتھ دکھائی دیا،گویا وہ چاند کاٹکڑا ہے۔ جواب:یہ روایت (المبسوط)میں کسی حوالہ کے بغیر مذکورہے،اگر اس کو صحیح تسلیم کرلیاجائے تواسے اس بات پر محمول کیاجائے گا کہ یہ بابرکت ہاتھ جو مسلسل چکی پیسنے کی وجہ سے آبلہ زدہ ہوچکا تھا ،اچانک بلا قصد وارادہ کھل گیاہو،اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی اچانک نظر پڑ گئی ہو۔ |
Book Name | چہرے اور ہاتھوں کا پردہ |
Writer | فضیلۃ الشیخ علی بن عبداللہ النمی |
Publisher | مکتبۃ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 222 |
Introduction | زیر نظر کتاب علی بن عبداللہ النمی کی تالیف ہے اور اس کا اردو ترجمہ فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی صاحب حفظہ اللہ نے کیا ہے، اس کتاب میں خواتین کے پردے کے حوالے سے سیر حاصل بحث کی گئی ہے، اس میں ایسے تمام شبہات کا تعاقب کیا گیا ہے جن پر ان لوگوں کا اعتماد تھا جو مسلم خاتون کو بے پردگی کی دعوت دینے میں کوشاں و حریص ہیں،کتاب بنیادی طور پر دو ابواب میں منقسم ہے ، ایک باب میں ان شبہات کا جائزہ لیا گیا ہے جو چہرے کے پردے سے متعلق ہیں اور دوسرا باب ہاتھوں کے ڈھانپنے کے وجوب سے متعلق شہبات کے ازالے پر مشتمل ہے۔ |