تاکہ حجاب کے اس مخصوص حکم کی تعمیل شدتِ مبالغہ کے ساتھ ہوجائے)[1] اگرکوئی شخص یہ اعتراض کرے کہ جب حجاب کا حکم تمام مومنات کیلئے عام ہے تو قرآن مجید نے،اس بارہ میں صرف امہات المؤمنین کوخطاب کیوں کیا؟اور باقی عورتوں کو کیوں چھوڑدیا؟ جواب:امہات المؤمنین کو بطورِ خاص مخاطب کرنے سے،ان کے فضل و شرف کا اظہارمقصودہے، اور جملہ مؤمنات اس معاملے میں ان کی اتباع کریں گی،مسلمان خواتین کوحجاب کے تعلق سے،امہات المؤمنین کی اقتداء اختیار کرنے میں جہاں حجاب کی اہمیتِ شان مقصود ہے ،وہاں ایک لطیف نکتہ بھی موجود ہے ،اوروہ یہ کہ جب دنیا کی سب سے افضل،نیک اور معصومیت سے انتہائی قریب خواتین کو پردہ کا حکم دیاجارہا ہے تو دوسری عورتوں کیلئے یہ حکم کس قدر مؤکد ہوگا۔(جبکہ اس دورکا معاشرہ بھی انتہائی پاکیزہ تھا،اور وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ پاکیزگی اورحیاء کے اقدار مفقود ہوتے جارہے ہیں) پھر یہ بھی توایک اسلام کا انتہائی اہم ادب ہے کہ ہرمربی کسی بھی حکم کی تنفیذ کیلئے اپنے گھر سے آغاز کرے۔ قرآن مجید کے اس اسلوب سے کون واقف نہیں ہے کہ بہت سے اوامر کیلئے خطاب صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے،مگر مراد ،اولویت کے ساتھ پوری امت ہے۔ |
Book Name | چہرے اور ہاتھوں کا پردہ |
Writer | فضیلۃ الشیخ علی بن عبداللہ النمی |
Publisher | مکتبۃ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 222 |
Introduction | زیر نظر کتاب علی بن عبداللہ النمی کی تالیف ہے اور اس کا اردو ترجمہ فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی صاحب حفظہ اللہ نے کیا ہے، اس کتاب میں خواتین کے پردے کے حوالے سے سیر حاصل بحث کی گئی ہے، اس میں ایسے تمام شبہات کا تعاقب کیا گیا ہے جن پر ان لوگوں کا اعتماد تھا جو مسلم خاتون کو بے پردگی کی دعوت دینے میں کوشاں و حریص ہیں،کتاب بنیادی طور پر دو ابواب میں منقسم ہے ، ایک باب میں ان شبہات کا جائزہ لیا گیا ہے جو چہرے کے پردے سے متعلق ہیں اور دوسرا باب ہاتھوں کے ڈھانپنے کے وجوب سے متعلق شہبات کے ازالے پر مشتمل ہے۔ |