دلیل بھی نہیں پیش کرسکے،حالانکہ تصحیحِ احادیث اور متونِ غریبہ سے استدلال کے حوالے سے ،بعض اوقات وہ تساہل میں واقع ہوئے ہیں۔ ان کے ہاں اپنے موقف کیلئے جو بھی دلائل ہیں،وہ محض چند مخصوص افراد کے قضایا تک محدود ہیں،جن کی کوئی عمومی حیثیت نہیں ہے،یا پھر ایسے ظنون (گمان اورشک) جو کچھ بھی حق سے کفایت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ عورت کیلئے چہرہ کھلا رکھنے کے جواز کے قائلین کی جو سب سے قوی دلیل ہے، اس کے اندر بھی بہت سے احتمالات کی گنجائش ہے،جن پر جتنا غوروفکر کیاجائے اتنا ان کا موقف کمزور ہوتاجائے گا۔ جوشخص دونوں اقوال میں تقابل کرے گا اورفریقین کے دلائل کاموازنہ کرے گا، وہ یقینا یہ محسوس کرے گا کہ جو لوگ چہرہ کھلا رکھنے کے جواز کے قائل ہیں ، ان کا قول، خست اوررذیلت کا داعی ہے ،جس پر نفس کو سکینت نہیںملتی اورقلبِ مومن کو اطمنان حاصل نہیں ہوسکتا۔ جبکہ جو لوگ چہرے کے پردے کے قائل ہیں ان کا قول عزت وفضیلت کاداعی ہے،جس پر نفس پُرسکون اور دل مطمئن ہے۔ جہاں تک جواز کے قائل حضرات کے دلائل کاتعلق ہے تو ان میں سے اگر کوئی صحیح سند سے ثابت ہے تو وہ محض کسی کا ذاتی فعل ہے جو غموض اور التباس سے خالی نہیں، یا پھر ایسے موقوف آثارہیں جن کے نقل میں کوتاہی اور نقص کاعمل دخل ہے۔ اس کے برخلاف جولوگ عورت کو چہرہ کھلا رکھنے سے روکتے ہیں،ان کے دلائل قولی بھی ہیں اور فعلی بھی،بالکل واضح،غموض والتباس سے پاک۔ بہت سے اصولی اورحدیثی قواعد بھی ان دلائل کے مؤید ہیں،مثلاًقاعدہ: قول، |
Book Name | چہرے اور ہاتھوں کا پردہ |
Writer | فضیلۃ الشیخ علی بن عبداللہ النمی |
Publisher | مکتبۃ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 222 |
Introduction | زیر نظر کتاب علی بن عبداللہ النمی کی تالیف ہے اور اس کا اردو ترجمہ فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی صاحب حفظہ اللہ نے کیا ہے، اس کتاب میں خواتین کے پردے کے حوالے سے سیر حاصل بحث کی گئی ہے، اس میں ایسے تمام شبہات کا تعاقب کیا گیا ہے جن پر ان لوگوں کا اعتماد تھا جو مسلم خاتون کو بے پردگی کی دعوت دینے میں کوشاں و حریص ہیں،کتاب بنیادی طور پر دو ابواب میں منقسم ہے ، ایک باب میں ان شبہات کا جائزہ لیا گیا ہے جو چہرے کے پردے سے متعلق ہیں اور دوسرا باب ہاتھوں کے ڈھانپنے کے وجوب سے متعلق شہبات کے ازالے پر مشتمل ہے۔ |