لوگ چہرے کی بے پردگی کی دعوت دیتے ہیں انہیں خاموش رکھنے کے عمل کی بھی ضرورت ہے،نہ تو وہ اپنی زبان سے کچھ کہیں نہ اپنے ہاتھوں سے کچھ لکھیں۔ جوعورت عملاً اپنا چہرہ کھلا رکھتی ہے،اس کے اس عمل کا انکار ۔ جس کی صورت یہ ہے کہ یہ عورت جو حجاب کے مسئلہ میں،بے پردگی والے قول کی تقلید کرتے ہوئے، ایسے شہر میں بے پردگی کی روش پر قائم ہے جہاں سارامعاشرہ بے پردہ گھومتا پھرتا ہے،اسے حق بات بتلائی جائے۔ اوراگر وہ عورت ایسے شہر میں ہے جہاں خواتین اپنے چہرے اورہاتھوں کے پردے کی محافظ ہیں اورپورامعاشرہ بے پردگی والے قول کو ٹھکرادینے والا ہے،تو پھر وہ عورت ،اس کا پردہ کے تعلق سے کچھ بھی مذہب ہوایسے علاقے میں مصلحتِ عامہ کا اعتبارکرتے ہوئے اور فساداوربگاڑ کی بیخ کنی کرنے کیلئے،پوراحجاب اپنے لئے ضروری قراردیدے۔ مسلمان حکام پربھی فرض ہے کہ وہ اپنے رعیت کی اصلاح وارشاد کے تعلق سے اپنی مسئولیت ،بطریقِ احسن نبھاتے رہیں اور ایک خاتون کیلئے چہرہ ڈھانپنے کے تعلق سے جو اللہ تعالیٰ کافریضہ ہے اس کی پوری طرح تنفیذ کریں۔ شیخ الاسلام فرماتے ہیں:عورتوں کا اپنے چہرے کھلے رکھنا ،اس طرح کہ ان پر اجنبی مردوں کی نظریں پڑتی ہوں،جائز نہیں ہے ،اور اس سلسلہ میں حاکمِ وقت کو امربالمعروف اورنہی عن المنکر کے سارے تقاضے پورے کرنے چاہئیں،نیز یہ کہ جو اس توجیہ کو قبول نہ کرے اسے قرارِ واقعی سزا کا مستحق ٹھہرائیں۔[1] |
Book Name | چہرے اور ہاتھوں کا پردہ |
Writer | فضیلۃ الشیخ علی بن عبداللہ النمی |
Publisher | مکتبۃ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 222 |
Introduction | زیر نظر کتاب علی بن عبداللہ النمی کی تالیف ہے اور اس کا اردو ترجمہ فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی صاحب حفظہ اللہ نے کیا ہے، اس کتاب میں خواتین کے پردے کے حوالے سے سیر حاصل بحث کی گئی ہے، اس میں ایسے تمام شبہات کا تعاقب کیا گیا ہے جن پر ان لوگوں کا اعتماد تھا جو مسلم خاتون کو بے پردگی کی دعوت دینے میں کوشاں و حریص ہیں،کتاب بنیادی طور پر دو ابواب میں منقسم ہے ، ایک باب میں ان شبہات کا جائزہ لیا گیا ہے جو چہرے کے پردے سے متعلق ہیں اور دوسرا باب ہاتھوں کے ڈھانپنے کے وجوب سے متعلق شہبات کے ازالے پر مشتمل ہے۔ |