Maktaba Wahhabi

143 - 222
اورمعروف ہیئات مثلاً:ان کا قد یا جسم کا بھاری پن وغیرہ کو چھپادیاہو،جنہیں عام طور پرجسم پر موجود اوڑھنیاں نہیں چھپاپاتیں۔ امہات المؤمنین رات کے وقت باہر قضائے حاجت کیلئے جایاکرتی تھیں،تاکہ رات کی تاریکی ان کیلئے مزید چھپنے کا سبب بن جائے،حالانکہ چہرہ ڈھانپ کرنکلنا،ان کے حق میں فرض تھا،جس پر اجماع قائم ہے۔ رات کی تاریکی میں جانے کا مقصد یہی ہے کہ جسم پر موجود کپڑا اورچادر تو جسم کو چھپاتے ہی ہیں،مگر رات کا اندھیرا مزید سترکا باعث بن جائے،اگر یہ مقصد کارفرما نہ ہو تو رات کو جانے کا کوئی فائدہ نہیں رہتا۔ ج۔اگر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ ان کے چہرے کھلے ہوتے تھے (جس کی بناء پر حدیثِ عائشہ میں یہ جملہ وارد ہوا کہ اندھیرے کی وجہ سے انہیں کوئی پہچان نہ پاتا)تو پھر بھی ہم کہیں گے کہ جب اندھیرا چھایاہواورایک عورت یہ سمجھتی ہوکہ وہ مردوں کی نگاہوں سے دورہے،تودریں صورت وہ اپنا چہرہ کھول سکتی ہے۔ مسند ابی یعلیٰ کی حدیث کے الفاظ (ومایعرف بعضنا وجوہ بعض)مذکورہ معنی کی تائید کرتے ہیں۔ (۲)اگر یہ تسلیم کرلیں کہ ان کے چہرے کھلے ہوتے تھے اور اندھیرا ان کی شخصیات کی معرفت میں حائل ہوتا تھا،توپھر اس میں چہرہ کھلا رکھنے کے جواز کی دلیل کہاں نکلتی ہے؟کیونکہ اللہ تعالیٰ نے[مِنْ وَّرَاءِ حِجَابٍ]کہہ کر حجاب کا حکم دیا ہے، جیسے بھی حاصل ہوجائے،مثلاً:لباس کے ساتھ یادیوار کی آڑ کے ساتھ یا ایسی تاریکی کے ساتھ جو کسی کو دیکھنے اورپہچاننے میں حائل ہوجائے۔ اس حدیث میں یہی تاریکی حجاب کے حکم میںہے،توپھر چہرے کے عدمِ حجاب کے قائلین کیلئے اس حدیث میں کوئی حجت باقی نہ رہی۔
Flag Counter