Maktaba Wahhabi

142 - 222
امام نووی فرماتے ہیں: جوعورت متلفعہ ہوتی ہے،دن کے وقت بھی اس کی ذات ناقابلِ پہچان ہوتی ہے ۔[1] عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکا یہ کہنا :(انہیں اندھیرے کی وجہ سے کوئی پہچان نہ پاتا)کے معنی میں کئی احتمال ہوسکتے ہیں: أ۔ایک یہ کہ باعتبارِ جنس ،ان کی پہچان ممکن نہ ہوتی،یعنی کہ وہ مرد ہیں یاعورتیں؟ صرف ہیولے دکھائی دیتے،یہ معنی داؤدی نے ذکرکیا ہے ،[2]جس کی تائید عائشہ رضی اللہ عنہا کے واقعۂ افک کے سیاق میں ان کے اس قول سے ہوتی ہے،فرماتی ہیں:صفوان بن معطل لشکر کے پیچھے پیچھے آرہا تھا،رات بھر کے سفرکے بعد صبح کے وقت وہ میرے ٹھکانے کے پاس پہنچا (فرأ ی سواد انسان نائم )یعنی :اس نے ایک سوئے ہوئے انسان کی شَبہَ دیکھی،اس کی تفسیر بیان کرتے ہوئے حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:یعنی ا س نے ایک انسان کی ذات دیکھی،ظاہر نہیں ہورہا تھا کہ وہ مرد ہے یاعورت؟[3] قیلہ بنت مخرمہ العنبریہ سے مروی ہے،فرماتی ہیں :ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو نمازِ فجر کی امامت کرارہے تھے، فجر کی نماز فجر کے پھوٹتے ہی قائم کردی گئی تھی اور ستارے آسمان میں بکثرت موجود تھے اور رات کی تاریکی کی وجہ سے مردوں کا پہچانا جانا ناممکن ہورہا تھا ،میں جو ابھی نئی نئی اسلام میں داخل ہوئی تھی، مردوں کی صف ،میں کھڑی ہوگئی،میرے ساتھ والے آدمی نے کہا :تومردہے یاعورت؟ میں نے کہا:میں عورت ہوں،تو اس نے کہا: تونے تو مجھے فتنہ میں ڈال دیا،جاؤ پیچھے عورتوں کی صف میں کھڑی ہو کر نماز پڑھو … الخ [4] ب۔دوسرا احتمال یہ ہوسکتا ہے کہ غلس یعنی رات کے اندھیرے نے ہر عورت کی بعینہ شخصیت کو مخفی کردیاہو،چنانچہ اندھیرے نے ان کی پہچان کی ظاہری علامات
Flag Counter