تدلیس التسویۃ)معروف تھا،جبکہ قتادہ بھی مدلس ہے،اور یہ دونوں اس حدیث کو عنعنہ کے ساتھ روایت کرتے ہیں۔[1] ب۔اس حدیث کا متن بھی نکارت پر قائم ہے؛کیونکہ یہ دوجہتوں سے،کتاب وسنت کے ظاہر کی مخالفت کررہاہے: کتاب وسنت کے دلائل تو چہرے اورہاتھوں کے ڈھانپنے رکھنے کے وجوب پر دلالت کرتے ہیں (جبکہ اس حدیث کی دلالت مذکورہ وجوب کے خلاف ہے) عورت کے چہرے اورہاتھوں سے نظریں جھکائے رکھنا بھی واجب ہے، جبکہ اس حدیث کے ظاہری الفاظ،جواز پرمشتمل ہیں۔ یاپھر یوں کہہ دیاجائے کہ یہ حدیث حجاب اور آنکھیں جھکائے رکھنے کی فرضیت کے نزول سے قبل کی ہے،دریں صورت یہ حدیث،محلِ نزاع سے خارج ہوجائے گی، اور اس کامصداق وہی بنے گا جو درج ذیل حدیث انس کاہے ۔ وہ فرماتے ہیں :جنگ احد والے دن جب لوگ عارضی طورپہ پسپائی اختیار کرگئے، میں نے دیکھا کہ ام المؤمنین عائشہ اور ام سلیم رضی اللہ عنہما اپنا کپڑا پنڈلیوں سے اوپر اٹھائے ہوئے،ان کی پازیبیں بھی دکھائی دے رہی تھیں ،اپنی کمروں پر پانی کے مشکیزے اٹھاکر لارہی تھیں اور انہیں زخمیوں کے منہ میں انڈیل رہی تھیں،پھر لوٹ کرجاتیں،مشکیزے بھرکے لاتیں اور زخمیوں کے منہ میں انڈیلتیں۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:یہ واقعہ غزوۂ احد کے موقع پر پیش آیا تھا،اس وقت عورتوں کو حجاب کاحکم نازل نہیں ہوا تھا،نہ ہی ان کی طرف دیکھنے کی حرمت اتری تھی۔[2] |
Book Name | چہرے اور ہاتھوں کا پردہ |
Writer | فضیلۃ الشیخ علی بن عبداللہ النمی |
Publisher | مکتبۃ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 222 |
Introduction | زیر نظر کتاب علی بن عبداللہ النمی کی تالیف ہے اور اس کا اردو ترجمہ فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی صاحب حفظہ اللہ نے کیا ہے، اس کتاب میں خواتین کے پردے کے حوالے سے سیر حاصل بحث کی گئی ہے، اس میں ایسے تمام شبہات کا تعاقب کیا گیا ہے جن پر ان لوگوں کا اعتماد تھا جو مسلم خاتون کو بے پردگی کی دعوت دینے میں کوشاں و حریص ہیں،کتاب بنیادی طور پر دو ابواب میں منقسم ہے ، ایک باب میں ان شبہات کا جائزہ لیا گیا ہے جو چہرے کے پردے سے متعلق ہیں اور دوسرا باب ہاتھوں کے ڈھانپنے کے وجوب سے متعلق شہبات کے ازالے پر مشتمل ہے۔ |