Maktaba Wahhabi

80 - 202
الثوب بنقد بعشرة وبنسئية بعشرين ولا يفارقه علي أحد البيعين فإذا فارقه علي أحدهما فلا بأس إذا كانت العقدة علي واحد منهما. قال الشافعي ومن معنى نهي النبي صلي اللّٰه عليه وسلم عن بيعتين في بيعة أن يقول أبيعك داري هذه بكذا على أن تبيعني غلامك بكذا" ’’بعض اہل علم نے’’ ایک بیع میں دو بیع‘‘ کامفہوم یہ بیان کیا ہے کہ فروخت کنندہ یوں کہے کہ میں یہ کپڑا تجھے نقد دس اور ادھار بیس کا فروخت کرتا ہوں، اورفریقین کوئی ایک قیمت طے کیے بغیر جدا ہوجائیں، لیکن جب ایک قیمت پر متفق ہوکر جدا ہوں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس کا مطلب ہے فروخت کنندہ یہ کہے کہ میں اپنا یہ گھر آپ کو اتنے میں اس شرط پر بیچتا ہوں کہ آپ اپنا غلام اتنے میں مجھے فروخت کریں گے۔‘‘[1] امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ہمارے استاد(ابن تیمیہ رحمہ اللہ)کا قول ہے کہ’’جو ایک بیع میں دو بیع کرےاس کے لیے کم قیمت ہے یا سود‘‘سے مراد بعینہ بیع عینہ ہے۔‘‘[2] بیع عینہ یہ ہے کہ کوئی چیز ادھار زائد قیمت پر بیچ کردوبارہ نقدکم قیمت پر خرید لی جائے۔مثلاً ایک شخص نے ایک سودس روپے میں کتاب خریدی اور ادائیگی کے ایک ماہ بعد طے پائی، اب فروخت کنندہ اسی شخص سے یہی کتاب ایک سوروپے میں نقد دوبارہ خرید لیتا ہے تو یہ بیع عینہ ہے جو سودی معاملہ ہونے کی وجہ سے حرام ہے کیونکہ فروخت کنندہ نے دیا تو ایک سوروپیہ ہے مگر وصول ایک سو دس پانے ہیں یہی سود ہے۔ دوسری جگہ فرماتے ہیں:
Flag Counter