چیز کا نقص واضح نہیں کرتے بلکہ اس کی ذمہ داری خریدار پر ڈال دیتے ہیں کہ آپ خود دیکھ لیں اگر بعد میں کوئی نقص نکلا تو ہم ذمہ دار نہ ہوں گے حالانکہ ان کو اس کا علم ہوتاہے یہ طریقہ خلاف شریعت ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے۔
" الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ، وَلَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ بَاعَ مِنْ أَخِيهِ بَيْعًا فِيهِ عَيْبٌ إِلَّا بَيَّنَهُ لَهُ "
’’ایک مسلمان دوسرے مسلمان کابھائی ہے۔اور کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کو ایسی چیز بیچے جس میں عیب ہو سوائے اس کے کہ وہ اس پر واضح کردے۔‘‘[1]
یعنی فروخت کنندہ کو چاہیے کہ وہ خریدار پر واضح کرے کہ مال میں یہ نقائص ہیں۔مال کے عیوب چھپانا کتنا عظیم جرم ہے، اس کی سنگینی کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں سے بیزاری اور بے تعلقی کا اعلان فرمایا ہے جو چیز کا عیب ظاہر کیے بغیر فروخت کردیتے ہیں۔چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں:
"أنَّ رَسولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عليه وسلَّمَ مَرَّ علَى صُبْرَةِ طَعامٍ فأدْخَلَ يَدَهُ فيها، فَنالَتْ أصابِعُهُ بَلَلًا فقالَ: ما هذا يا صاحِبَ الطَّعامِ؟ قالَ أصابَتْهُ السَّماءُ يا رَسولَ اللّٰهِ،قالَ: أفَلا جَعَلْتَهُ فَوْقَ الطَّعامِ كَيْ يَراهُ النَّاسُ، مَن غَشَّ فليسَ مِنِّي"
’’بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غلے کے ایک ڈھیر کے پاس سے گزرے تو آپ نے اپنا ہاتھ اس ڈھیر میں داخل کیا، آپ کی انگلیوں نے گیلا پن محسوس کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے غلے والے یہ کیا ہے؟اس نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر بارش پڑ گئی تھی۔
|