Maktaba Wahhabi

155 - 202
تجارت ہی ہے۔اگر تجارت کی آڑ میں خالد بھی وہی کچھ کرنا شروع کردے جو زید کر رہا تھا اور علماء اسے جائز قراردیں تب تو اس استدلال میں کوئی معقولیت نظر آتی لیکن سوائے اس کے کہ زید کی طرح خالد نے بھی اپنے منافع کا معیار شرح سود کو بنا لیا ہے دونوں کے کام اور طریق کار میں کوئی مناسبت نہیں۔جب کہ یہاں معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے کہ سودی بینکوں کی طرح اسلامی بینک بھی مالیاتی ادارہ ہے جو اجارہ وغیرہ کے نام پر مالیات کی سہولت فراہم کر کے فائدہ اٹھاتا ہے، حقیقتاً اجارہ کا معاملہ نہیں کرتا۔جس کی ایک واضح دلیل وہ معاہدہ ہے جو ابتدائی مرحلہ میں ماسٹر فنانسنگ ایگریمنٹ’’ اصولی معاہدہ برائے تمویل‘‘کے عنوان سے بینک اور کائنٹ کے درمیان طے پاتا ہے۔جب یہ سرمائے کی سہولت کا معاہدہ ہے تو اس میں مروجہ شرح سود کو معیار بنانا صرف ناپسندیدہ ہی نہیں حرام ہے۔ یہاں یہ نکتہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ خالد کا اپنے حلال منافع کے لیے شرح سود کو معیار بنانا ایک انفرادی عمل ہے۔اگر خالص فقہی نقطۂ نظر سے اس کی کوئی گنجائش نکلتی بھی ہو تو اس کو ایک مستقل نظام کی حیثیت دینا ہر گز درست نہ ہو گا کیونکہ بعض اوقات انفرادی عمل میں وہ خرابیاں نہیں پائی جاتیں جو اس کو ایک مستقل نظام کی صورت دینے سے رفتہ رفتہ اس میں پیدا ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح اسلامی بینک کا بکنگ کی تاریخ سے قبضہ (Delivery)تک کی درمیانی مدت یعنی Grace Period میں اس رقم پر حاصل ہونے والے متوقع سود کو لاگت میں شمار کرنابھی غلط ہے کیونکہ زر کا متعین ممکنہ نفع سودی تصور ہے جس کو اسلام تسلیم نہیں کرتا۔اس لیے کہ زر میں اگر نفع کمانے کی صلاحیت ہے تو اسے خسارے کا بھی خطرہ لاحق رہتا ہے اور یہ خطرہ ہی اسے نفع کے قابل بناتا ہے۔ ہم اوپر روائتی لیزنگ کی قباحتوں میں بیان کر آئے ہیں کہ سودی بینک جس وقت رقم فراہم کرتا ہے اسی تاریخ سے کرایہ لینا شروع کردیتا ہے خواہ کلائنٹ کو گاڑی چندماہ بعد ملے۔مروجہ
Flag Counter