Maktaba Wahhabi

140 - 202
ولأنه شرط عقدافي عقد فلم يجز" ’’اوراگر قرض میں یہ شرط لگائے کہ وہ اسے اپنا گھر کرایہ پر دے گا یا اسے کوئی چیز بیچے گا یا کسی موقع پر قرض لینے والا اسے قرض دے گا تو یہ جائز نہیں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع اور قرض سے منع فرمایا ہے۔اور یہ اس لیے بھی منع ہے کہ اس نے ایک عقد میں دوسرے عقد کی شرط لگائی ہے جو ناجائز ہے۔‘‘[1] ٭ اجارہ کا معاملہ طے کرتے وقت اس امر کا تعین بھی ضروری ہے کہ یومیہ، ماہانہ یا سالانہ نہ کرایہ کیا ہوگا، تاکہ اس میں غرر کا عنصر شامل نہ ہو، اور اگر اجارہ طویل مدت کے لیے ہوتو پھر یہ بھی طے ہوجانا چاہیے کہ آئندہ اس میں اضافہ کتنی مدت بعد ہوگا، اور کس تناسب سے ہوگا۔مثلاً 5فیصد سالانہ۔ ٭ جب تک پٹہ دہندہ اجارہ شدہ اثاثہ پٹہ دار کے قبضہ میں نہیں دے،دیتا یا معاہدہ اجارہ کے اندر کرائے کا کچھ حصہ پیشگی ادا کرنے کی شرط نہیں لگالیتا وہ کرائے کی وصولی کااستحقاق نہیں رکھتا۔تاہم معاہدہ اجارہ سے قبل کرائے کی ادائیگی کامطالبہ درست نہیں۔ ٭ کرائے کی ادائیگی میں تاخیر کی بنا پر پٹہ دار سے اضافی رقم وصول کرنی جائز نہیں، کیونکہ کرایہ واجب الادا ہونے کے بعد کرایہ دار کے ذمہ دین(Debt) بن جاتاہے جس پر ملنے والا کوئی بھی اضافہ سود کی تعریف میں داخل ہونے کی وجہ سے ناجائز ہوتا ہے۔اگرچہ پٹہ دار بینک یامالیاتی ادارہ یہ اضافی رقم نیکی اور بھلائی کے کاموں پر خرچ کرنے کے ارادے سے حاصل کرنا چاہتا ہو مگر پھر بھی جائز نہیں۔(دوسرا البر کہ سیمینار فتوی نمبر 13 ملاحظہ ہو جدید اقتصادی مسائل شریعت کی نظر میں :ص 43) ٭ اجارہ پر لینے والا شخص(Lessee) صرف چیز کا حق استعمال خریدتاہے۔اجارہ کے پورے عرصہ کے دوران اصل چیز پٹہ دہندہ(Lessor) کی ملکیت میں رہتی ہے اس لیے
Flag Counter